مزید خبریں

جنتی فرقہ

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’یہود اکہتر، بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ اسی طرح نصاریٰ بھی اکہتر بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی‘‘۔
یہ حدیث سنن ابی داؤد (کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، 4596)، جامع ترمذی (ابواب الایمان، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ، 2640)، سنن ابن ِ ماجہ (کتاب الفتن، باب افتراق الامم، 3991) اور مسند احمد (2/333) میں مروی ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ نیز فرمایا ہے کہ اس مضمون کی حدیث سیدنا سعدؓ، عبداللہ بن عمروؓ اور عوف بن مالکؓ سے بھی مروی ہے۔ (و فی الباب عن سعد و عبد اللہ بن عمرو و عوف بن مالک)

بعض دیگر صحابہ کرامؓ سے مروی احادیث میں کچھ اضافہ ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیل دی جا رہی ہے:

سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسولؐ نے آگے یہ بھی فرمایا:

’’بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔ اور وہ الجماعۃ میں ہوگا‘‘۔
یہ حدیث سنن ابی داؤد (کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، 4597) اور سنن الدارمی (کتاب السیر، باب فی افتراق ھذہ الامۃ، 2518) میں آئی ہے۔ عصر حاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع)
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی حدیث میں اضافے کے الفاظ یہ ہیں:

’’تمام فرقے جہنمی ہیں، سوائے ایک کے اور وہ الجماعۃ ہے‘‘۔

یہ حدیث سنن ابن ِ ماجہ (کتاب الفتن، باب افتراق الامم، 3993) اور مسند احمد (3/120) میں آئی ہے۔ محدث بوصیریؒ کہتے ہیں:

اس کی سند صحیح ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ علامہ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

سیدنا عوف بن مالکؓ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:

’’ایک گروہ جنت میں جائے گا اور بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا: وہ کون لوگ ہوں گے (جو جنت میں جائ گے) آپؐ فرمایا: الجماعۃ‘‘۔

یہ حدیث بھی سنن ابن ماجہ (کتاب الفتن، باب افتراق الامم، 3992) میں آئی ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی (راشد بن سعد) پر کچھ کلام کیا گیا ہے، لیکن ابو حاتم نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ سچے ہیں۔ ایک دوسرے راوی عباد بن یوسف ہیں۔ ان سے صرف ابن ماجہ نے تخریج کی ہے اور وہ بھی صرف یہی حدیث۔ ابن عدی کہتے ہیں: بہت سی روایات میں یہ منفرد ہیں۔ لیکن ابن حبان نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے۔ اس سند کے دیگر تمام راوی ثقہ ہیں۔ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی حدیث ِ نبوی میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
’’سب جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک گروہ کے، صحابہؓ نے عرض کیا: وہ کون گروہ ہوگا، اے اللہ کے رسولؐ! فرمایا: جو اس راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب چل رہے ہیں‘‘۔

اس کی روایت امام ترمذی (ابواب الایمان، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ، 2641) نے کی ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی ضعیف ہے، لیکن دیگر شاہد روایتوں کی وجہ سے مشہور محدثین علامہ البانی اور علامہ عبد القادر الارناووط نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے الجماعۃ کی تشریح ہوتی ہے۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ جن روایتوں میں اضافہ ہے وہ بھی صحیح ہیں۔ انھیں ضعیف کہہ کر اضافے کو رد کرنا مناسب نہیں ہے۔

اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کے تہتر فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بقیہ بہتر فرقے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے، وہ کبھی جنت میں نہ جاسکیں گے۔ کسی کے جنتی ہونے کے دو مفہوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے گا اور ابتدا ہی میں جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ وہ جہنم میں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائے گا۔ اسی طرح کسی کے جہنمی ہونے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ اسے ابتدا ہی میں جہنم میں داخل کیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور دوسرا یہ کہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا، بعد میں اس سے نکال کر جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اس حدیث میں جس گروہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے وہ پہلے مفہوم میں ہے اور دیگر جن گروہوں کے جہنم میں جانے کا ذکر ہے وہ دوسرے مفہوم میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے، اس کے بعد انھیں بھی جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ حدیث میں تمام گروہوں کے لیے اللہ کے رسولؐ نے امتی (میری امت) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ خطابی شارح سنن ابی داؤد فرماتے ہیں:

’’اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ تمام فرقے دین سے خارج نہیں ہیں، اس لیے کہ نبیؐ نے سب کو اپنی امت میں شامل کیا ہے‘‘۔ (معالم السنن، المطبعۃ العلمیۃ حلب، شام)

مولانا سید احمد عروج قادری نے اس حدیث کے سلسلے میں بعض اشکالات کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی اچھی تشریح کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے احکام و مسائل، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، جلد اول، ص: (137-141)