مزید خبریں

پناہ گزینوں کی بیدخلی سے پاک افغان تعلقات پر برا اثر نہیں پڑے گا

کراچی (رپورٹ / محمد علی فاروق) پناہ گزینوں کی بیدخلی سے پا ک افغان تعلقات پر برا اثر نہیں پڑے گا‘ہرملک غیر قانونی تارکین وطن کو ڈیپورٹ کرتاہے ‘بے دخلی کی پالیسی طالبان حکومت کی مشاورت سے طے کی جائے‘ افغانستان پاکستان پراپنے فیصلے مسلط کرناچاہتاہے‘ افغان باشندوں نے رشوت کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ و دیگر اہم دستاویز ات حاصل کیں‘سنگین جرائم میںبھی ملوث ہیں۔ ان خیا لات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی پاکستا ن راشد نسیم، معروف بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر اور جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعید نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان سے تارکین کی جبری بے دخلی کے پاک افغان تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟‘‘راشد نسیم نے کہا کہ تارکین وطن کا مسئلہ صرف افغانیوں کا ہی نہیں ہے بلکہ برمی اور بنگلادیشی باشندے بھی پاکستان میں موجود ہیں اور ان سب کو پاکستان نے ہی مختلف ادوار میں داخلے کی اجازت دی ہے‘ غیر قانونی طور پر کوئی بھی داخل نہیں ہوا‘ افغانستان میں جنگ کے دوران افغان مہاجرین آئے تو ان کی دیکھ بھال اور معاشرے میں بحالی کے اقدامات بھی پاکستان کی حکومت نے ہی سر انجام دیے اور ان افغان باشندوں کو مختلف شہروں میں بسایا گیا‘ ظاہر ہے کہ پاکستان افغانستان میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی پشت پر تھا، ان کی لیڈر شپ پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر تھی، یہ تو پاکستان کا گزشتہ پس منظر ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی واپسی کی جو بھی حکمت عملی بنا ئی جائے، افغان حکومت کے ساتھ باہمی رضا مندی سے ہی طے کی جائے اور ایک فارمولے کے تحت ہی افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجنا چاہیے ورنہ یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا اقدام نہ ہوگا‘ افغانستان ہمارا پڑوسی اور ایک برادر اسلامی ملک ہے‘ اس سے اس وقت ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں‘ اس پہلو سے افغان حکومت کے ساتھ مل جل کر ہی تارکین وطن کی واپسی کی پالیسی بنائی جا نی چاہیے، یہ پورے خطے اور ہمارے لیے بھی اچھا ہوگا۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ حکومت کو تارکین وطن کی بے دخلی کے حوالے سے پالیسی بہت پہلے جاری کرنی چاہیے تھی کیونکہ جو بھی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہے وہ ایسے ہی رہائش پذیر نہیں ہے اس کی پشت پر کوئی ہے جو اس کی مدد کر رہا ہے‘ اس سلسلے میں 3 باتوں کو ذہین نشین رکھنا چاہیے، پہلی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین 1980ء سے پاکستان میں آنا شروع ہوئے، تقریباً اب تک40 لاکھ سے زاید افغان باشندوں نے پاکستان کا رخ کیا ، ان کی دوسری اور تیسری نسل گزر رہی ہے‘ انہوں نے پاکستان رجسٹریشن اتھارٹی کے حکام کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستانی شناخت کے لیے ضروری کاغذات، شناختی کارڈ، ڈومیسائل، پاسپورٹ و دیگر اہم دستاویز تیار کرالی ہیں‘ تارکین وطن نے ریاست کے کمزور نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاری رقوم کے عوض کسی بھی خاندان کا فرد بن کر شنا ختی کارڈ اور پھر پاسپورٹ حاصل کر لیے ہیں اور سرکاری اداروں میں بیٹھے کرپٹ افراد نے چند ٹکوں کے عوض انہیں یہ راستہ دکھایا، تارکین وطن کا ریکارڈ محفوظ کرنے کے بجائے ان کا ریکارڈ ہی غائب کروا دیا گیا، اداروں کے پاس اب تارکین وطن کا نامکمل ریکارڈ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کو تارکین وطن کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ جہاں تک افغان مہاجر ین کا تعلق ہے اس میں2 طرح کے مہاجرین ہیں، ایک فارسی بولنے والے اور دوسرے پشتو بولنے والے ہیں‘ پشتو بولنے والوں کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ پاکستانی معاشر ے میں گھل مل جائیں ، ان کو خاندانی سپورٹ پشتون علاقوں سے مل گئی تھی جبکہ فارسی بولنے والوں کو کچھ مشکلات پیش آئیں تاہم ایرانی نژ اد خاندانوں نے فارسی بولنے والے افراد کی مد د کی‘ دوسری جانب 15لاکھ سے زاید افغان مہاجرین کو ایرانی حکومت نے صرف کیمپوں تک ہی محدود رکھا۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ دراصل تارکین وطن کی وجہ سے ہی پاکستان میں کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا‘ منشیات کے کاروبار میں بے تحاشا اضافہ ہوا جن میں اغوا برائے تاوان سمیت سنگین وارداتیں شامل ہیں‘ حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی بے دخلی کے فیصلے کو طالبان کی عبوری حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کی طرف سے پاکستان کو دھمکیاں دینا یا بلیک میلنگ کرنا ایک غیر مناسب رویہ ہے، افغانستان چاہتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پاکستان پر مسلط کرے جبکہ پاکستان میں ہر جانب غیر قانونی کاروبار میں افغان نژاد ملوث ہیں مگر ان افراد نے بڑی عیاری و مکاری سے پاکستانی شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بنوا لی ہیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کر نے والے ادارے لاپر وا ہیں، بین الاقوامی سطح کے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پاکستانی عوام تک پہنچ جاتی ہے مگر ہمارے ادارے ان کی موجودگی سے بے خبر رہتے ہیں کہ کون کون سے دہشت گرد پڑوسی ملک سے داخل کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے ایک شاگرد نے 20 سال قبل کراچی یونیورسٹی سے آئی آر میں ماسٹر کیا‘ میں نے اسے اس وقت پہچانا جب 2011ء میں وہ افغانستان کے ایک صوبے کا گورنر مقر ہوا اور اس کی وڈیو نظر سے گزری، مجھے اس شاگرد نے اپنا تعلق کوئٹہ سے بتایا اور اس کے کاغذات بھی کوئٹہ سے بنے ہوئے تھے، یہ پاکستان کے اداروں کی نااہلی ہے‘ ان عوامل کے مدنظر تارکین وطن کا پاکستان میں رہنا بالکل ناجائز اور غلط ہے۔ ڈاکٹر ثمینہ سعید نے کہا کہ دنیائے عالم میں تارکین وطن کا مسئلہ بہت پرانا ہے ، ان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ نے اپنا ایک ذیلی ادارہ برائے پناہ گزین قائم کیا ہوا ہے‘ مختلف ممالک نے عالمی امداد کے ذریعے ان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے مہزبان ملک کی معیشت پر نہ تو بوجھ بنے اور نہ ہی ان کے اپنے شہری متاثر ہوں ۔ بہت سے ممالک نے اقوام متحدہ کے اس ایجنڈے پر دستخط کیے ہوئے ہیں‘ پاکستان نے بدقسمتی سے نہ تو اس پر دستخط کیے اور نہ ہی پنا گزینوں کے لیے کوئی پالیسی بنائی‘ اس کے نتیجے میں مختلف ممالک کے باشندے پاکستان میںغیر قانونی طور پر پناہ گزین ہیں‘ ہم ان کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں‘ روس کی افغانستان پر چڑھائی، خانہ جنگی، پھر امریکا کا آنا اور بعد ازاں طالبان کے وہاں کنٹرول سنبھالنے کے دوران افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہوگئی ‘ ان کی آمد کا سلسلہ آج تک جاری ہے‘ افغانستان میں آج تک حالات وہاں کے باشندوں کے لیے سازگار نہیں ہیں ، ان غیر قانونی پناہ گزینوں کی وجہ سے پاکستان میں جرائم کی تعداد بڑھی‘ افغان خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان میں بدامنی ہوئی اور ہمارے ہزاروں شہریوں اور فوجی اہلکار وںنے جام شہادت نوش کیا اور ہمارا ملک آج بھی بد امنی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، افسوس کی بات ہے کہ ہماری سابق حکومتوں نے ان پنا ہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی‘ پاکستان حکومت نے موجود تمام غیر قانونی تارکین وطن کو 31نومبر تک نکل جانے کا حکم صادر کیا ہے‘ پاکستان ایک آزاد خود مختار اور امن پسند ملک ہے جو اپنے فیصلے اپنے ملکی مفاد کے مطابق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ آخر میں میرا ایک سوال ہے کہ کیا دنیا بھر کے ممالک غیر قانونی تارکین وطن کو ڈیپورٹ نہیں کرتے؟ کیا ان کے تعلقات پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ جب ان کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو اس حوالے سے پاکستان اگر ایسا کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس سے پاک افغان تعلقات پر بھی کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان افغان بھائیوں کی برے حالات میں مدد کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا‘ آج وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے ایک ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی طور پر مقیم لوگ باعزت طور پر اپنے ملک کو واپس لوٹ جائیں۔