مزید خبریں

عمران اسٹیبلشمنٹ مفاہمت دور کی بات ہے، پی ٹی آئی کو تو ختم کیا جا رہا ہے

کراچی (رپورٹ : قاضی جاوید) عمران اسٹیبلشمنٹ مفاہمت دور کی بات ہے، پی ٹی آئی کو تو ختم کیا جا رہا ہے ‘ نگراں پنجاب حکومت کھلم کھلا تحریک ِ انصاف سے اپنے تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے ‘ پی ٹی آئی کو ہوسکتا ہے انتخابات لڑنے کی بھی اجازت نہ دی جائے‘ نواز شریف کو بڑے جلسے کی اجازت دیدی گئی‘ پی ٹی آئی چھوٹی سی کارنر میٹنگ بھی نہیں کر سکتی۔ ان خیالات کا اظہار معروف صحافی ہارون رشید، تجزیہ نگار حبیب اکرم، مسلم لیگ ن کے اقبال ظفر جھگڑا اور صحافی فریحہ ادریس نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں بالآخر مفاہمت ہو جائے گی؟‘‘ ہارون رشید نے کہا کہ مفاہمت کا دور دور تک کوئی پتا نہیں ہے اور یہ بات واضح رہے کہ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کی حمایت کا عندیہ دے رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہ رائے صرف تحریک انصاف کی نہیں ہے بلکہ ماضی میں نواز شریف کے قریب رہنے والی پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی اس قربت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے حال ہی میں اپنے بیانات میں ایسے اشارے دیے ہیں جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی قربت سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اس کو جمہوریت کے لیے نقصان دہ بھی سمجھتے
ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس قربت کی وجہ سے انتخابات وقت پر نہیں ہو ں گے‘ عمران خان فوری عام انتخابات پر یقین رکھتے اور انہوں نے اس سلسلے میں صدر عارف علوی کو یہ پیغام بھی بھیجا ہے کہ وہ فوری طور پر الیکشن کا اعلان کر یں۔ حبیب اکرم نے کہا کہ مفاہمت کی بات تو بعد میں ہو گی، ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ آیا تحریک انصاف انتخابات میں حصہ بھی لے سکے گی یا نہیں اور یہ کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لے گی تو اس کو نمائندے کیسے ملیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابات لڑنے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا ہو۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہونا چاہیے کہ وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت برداشت نہیں کریں گی اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہے۔ اس سے جمہوری ارتقا ہوگا اور جمہوریت مضبوط ہوگی‘ نواز شریف کی طرف سے مبینہ طور پر دی جانے والی اس حمایت کی وجہ سے کئی حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر ہے‘ لیول پلیئنگ فیلڈ تو دور کی بات ہے۔ اس وقت تو تحریک انصاف کو بالکل لیول کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف نواز شریف کو اتنا بڑا جلسہ کرنے کی اجازت دے دی گئی اور دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان کو ایک چھوٹی سی کارنر میٹنگ بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ان حالات میں کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں بالآخر مفاہمت ہو جائے گی؟‘‘ اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ2018ء میں مفاہمت کی بات نظر آ رہی تھی اور اب ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہوگا ۔ نواز شریف کو جب بھی عوام نے اقتدار دیا تو انہوں نے اپنا نظریہ اور اپنا بیانیہ ترک نہیں کیا ہے‘ مسلم لیگ ن آج بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہے اور اس بات کو اصولی سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے‘ اگر اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کی تو نواز شریف اصولوں پر سودے بازی نہیں کریں گے بلکہ آئین کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے‘ مسلم لیگ ن اس تاثر کو رد کرتی ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے یا اسٹیبلشمنٹ اس کی حمایت کر کے ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ نواز شریف اب بھی سب سے مقبول رہنما ہیں اور ان کی مقبولیت کی جڑیں عوام میں ہیں لہٰذا اسٹیبلشمنٹ مجبور ہوئی کہ وہ مسلم لیگ ن سے رابطہ کرے تاکہ ملک کو بحران سے نکالا جا سکے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کی حمایت پر انحصار کر رہے ہیں یا وہ ہماری حمایت کر رہے ہیں۔ فریحہ ادریس نے کہا کہ مفاہمت کی بات تو شاید اب بہت دور کی بات ہے‘ نگراں پنجاب حکومت کھلم کھلا تحریک انصاف سے اپنے تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس کا جھکاؤ ایک مخصوص جماعت کی طرف ہے جبکہ الیکشن میں تاخیر آئین کے آرٹیکلز 14 اور 16 کی صریح خلاف ورزی ہے، اس طرح کے اقدامات نگراں حکومت کی ناکامی کے بھی عکاس ہیں جو سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے پہلے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دے رہی۔