مزید خبریں

تکبر کے درجات و علاج

بعض اہل علم نے تکبر کے تین درجات بیان کیے ہیں:
1۔دل میں اپنی بڑائی ہو اور ظاہر میں تواضع وانکساری ہو۔ تکبر کا یہ درجہ انتہائی خطرناک ہے اوراس کا تجزیہ کرنا بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس درجہ میں تکبر صرف دل تک محدود رہتا ہے اور انسان کے عمل یا قول میں داخل نہیں ہوتا۔
2۔تکبر کا دوسرا درجہ دل کے بعد اپنے افعال واعمال میں تکبر کا اظہار کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص مجالس، محافل، دوستوں، خاندان اور معاشرے میں اپنے عمل وفعل کے ذریعے اپنی بڑائی چاہے جیسا کہ ہم نے سابقہ صفحات میں اس کی کئی ایک مثالیں بیان کی ہیں۔ حدیث میں تہبند یا شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا عملی تکبر میں شامل کیا گیا ہے۔ گردن میں چادر ڈال کر دونوں کندھوں سے نیچے لٹکانا بھی پنجاب کے چوہدریوں میں عملی تکبر کی ایک صورت ہے۔ بعض اوقات جبوں اور قبوں کے ذریعے بھی عملاً اپنی بڑائی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

3۔تکبر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل اور عمل سے بڑھ کر ا پنی زبان سے فخر کا اظہار کرے مثلاً اپنے تزکیۂ نفس یا نیک ہونے کے دعوے کرے۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے وہ باتوں باتوں میں ہر کسی کو اپنے تہجد گزار ہونے یا نیک ہونے یا بڑا عالم دین ہونے یا تعلیمی اسناد کی تاریخ سنانے یا عظیم محقق ہونے یا فل پروفیسر ہونے یا دین کا عظیم خادم بتلانے کے لیے بے چین ومضطرب ہوتے ہیں۔ بلاشبہ اس قسم کے ا قوال میں تکبر قولی کی واضح صورت جھلکتی نظر آتی ہے اور اگر کسی شخص میں یہ عادت ہو تو اسے اپنے اپنی باطنی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

تکبر کے اسباب
تکبر کیوں پیدا ہوتا ہے یا اس کے اسباب کیا ہیں؟ تکبر کے اسباب میں سے اہل علم نے حسد، بغض، کینہ، عجب اور ریا کا تذکرہ کیا ہے۔ جب کوئی شخص مال، علم، حسن وجمال یا مقام ومرتبے میں دوسرے سے حسد محسوس کرتا ہے تو عموماً اس پر تکبر کے ذریعے بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی طرح جب کوئی شخص کسی دوسرے سے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہے تو یہ بھی اس کے تکبر کا سبب بن جاتے ہیں۔ اپنے نفس کے عشق میں مبتلا ہونا یعنی خود پسندی اور عجب بھی تکبر کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔ اسی طرح ریاکاری بھی تکبر کے اسباب میں داخل ہے۔

تکبر کا علاج
اہل علم نے تکبر کے دو قسم کے علاج تجویز کیے ہیں جو ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں:
علمی علاج
تکبر کا علمی علاج یوں کیاجا سکتا ہے کہ انسان جب اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت یا صفت یا کمال پر اپنے نفس میں بڑائی محسوس کرے تو یہ سوچ بار بار پیدا کرے:
1۔میرے اندر کا یہ کمال حق سبحانہ وتعالیٰ کا پیدا کردہ ہے یعنی عطائی ہے اور اس کے حصول میں میرا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں ہے۔
2۔میں کسی ذاتی اہلیت کی بنا پر اس نعمت خداوندی کا مستحق نہیں تھا لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ کمال عطا فرما کر مجھے اپنی رحمت سے مجھے نوازا ہے۔
3۔اس کمال کے اللہ کی طرف سے عطا کیے جانے کے بعد اس کا بقا میرے اختیار اور بس میں نہیں ہے اور کسی بھی وقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے سلب کر سکتے ہیں۔
4۔اگرچہ دوسرے شخص میں یہ کمال فی الحال نہیں ہے لیکن ممکن ہے مستقبل قریب یا بعید میں اسے یہ کمال مجھ سے بھی زائد درجے میں حاصل ہو جائے۔
5۔اس کا بھی غالب امکان ہے کہ دوسرے شخص میں کچھ ایسے کمالات ہوں جو میری نظر سے مخفی ہوں اور ان کی بنا پر اس کا رتبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں مجھ سے زائد ہو۔

عملی علاج
تکبر کا علمی اور بہترین علاج یہ ہے کہ انسان جس کو اپنے نفس سے چھوٹا سمجھے، اس کے ساتھ بیٹھے، کھائے، پیے، گفتگو کرے، دوستی کرے، اس کا احترام کرے، اس کے بارے تحسین کے کلمات کہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ مثلاً ایک امیر اپنے تکبر کو غربا میں بیٹھ کر اور ایک عالم دین اپنے تکبر کو طلبا میں بیٹھ کردور کر سکتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اہل علم نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ شریعت میں ازالہ نہیں بلکہ اِمالہ ہے یعنی معصیت کا مادہ ہی انسان سے ختم ہو جائے تو یہ شریعت کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ شریعت کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان معصیت کے تقاضوں پر عمل نہ کرے اور ان کو کنٹرول کرے۔ پس تکبر کا مادہ ختم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ تکبر کے تقاضوں پر عمل نہ کرنا اور اس بیماری کا علاج کرنا مقصود شرع ہے۔