مزید خبریں

چین‘ بھارت کے درمیان معاشی مقابلہ ضرورہے‘ جنگ کا امکان نہیں

کراچی (رپورٹ\محمد علی فاروق) چین‘ بھارت کے درمیان معاشی مقابلہ ضرورہے‘ جنگ کا امکان نہیں‘ تصادم دونوں کے مفاد میں نہیں،ان میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کی دوڑ شروع ہوگئی ہے ،گزشتہ سال چین بھارت کی باہمی تجارت 135.98 بلین ڈالررہی‘چین بھارت کی بالادستی قبول نہیں کرے گا‘ تنازعات کے اقتصادی، جیوپولیٹیکل اور جغرافیائی عوامل بھی اہم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، پاکستان کے معروف تجزیہ کار اور سابق سفیر عبدالباسط اور پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے نمائندہ جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا بھارت اور چین کا تصادم دونوں کا مقدر بن گیا ہے؟‘‘ امیر العظیم نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان 1962ء کی دہائی سے سرحدی جھڑپوں اور مختلف تنازعات کا سلسلہ جاری ہے اور وہ ایک دوسرے پر اعتماد کے فقدان کا بھی شکار ہیں، بھارت اس خطے میں اپنی بالادستی کا خواب دیکھ رہا ہے اور امریکا کی شے پر تھائی لینڈ، سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، میانمار ، بنگلادیش جیسے ایشیائی ممالک میں مہم جوئی کے ساتھ چین کے لیے بھی خطرے کا سبب بنتا رہتا ہے‘ ان تمام معاملات میں امریکی حکام بھی جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں‘ اگرچہ چین اب تک صبر و تحمل کا ثبوت دیتا رہا ہے لیکن اس خطے پر اس کی بھی پوری نظریں جمعی ہوئی ہیں‘ وہ ایک حد سے زیادہ بھارت کو اجازت نہیں دے گا کہ وہ اپنی تھانیداری اور بالا دستی کو اس خطے میں قائم کرے، اس لیے اس علاقے میں جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات بھڑک سکتے ہیں اسی طرح چین اور بھارت کے درمیان بھی تصادم ناگزیر ہے اور سرحدی علاقوں میں جھڑپیں اور بداعتمادی کی فضا بدستور جاری رہے گی تاہم بھارت اور چین کے درمیان تنازع کے اقتصادی، جیوپولیٹیکل اور جغرافیائی عوامل بھی اہم ہیں۔ عبدالباسط نے کہ بھارت اور چین کے درمیان لائن آف کنٹرول پر چھوٹی چھوٹی جھڑپیں تو جاری رہیں گی مگر ایک بڑی جنگ کا تو اس وقت کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تاہم یقین سے تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اس معاملے میں حائل رہیںگی‘ اس میں اہم امریکا اور بھارت کے تعلقات ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ بھارت شنگھائی تعاون تنظیم (شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن) اور بریکس کے اجلاسوں میں کیا کرتا ہے، ابھی بڑی غیر یقینی کی سی صورت حال ہے‘ بہرحال یہ صورت حال اسی طرح جاری رہے گی، اس وجہ سے شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن اور بریکس میں شامل ممالک ایسی صورت حال میں کچھ نہیںکر سکتے ہیں‘ چائنا کا تو اس وقت فوکس بریکس ممالک پر ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ بھارت کو بریکس سے سائیڈ لائن کیا جائے لیکن فی الحال دونوں ممالک میں جنگ کا تو خطرہ نہیں ہے ایک دوسرے کے خلاف معاشی مقابلہ ضرور رہے گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح آئندہ کی صورت حال تبدیل ہوتی ہے۔ رسول بخش رئیس نے کہا کہ پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے‘ دراصل جنگ ان دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی بڑی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک بڑی جنگ میں داخل ہوجائیں‘ ان دونوں مما لک کے درمیان آکسائی چین سمیت کچھ اور سرحدی تنازعات ضرور ہیں مگر جنگ ہونا مشکل ہے‘ ان سرحدی علاقوں میں دونوں جانب سے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیںاور چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن ان دونوں ممالک کا فوکس اکنامی (معیشت ) پر ہے‘ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ وہ پرامن طریقے سے دنیا کے بہترین معاشی ملک بن جائیں‘ اس حوالے سے بھارت بہت جلدی میں ہے اور دنیا کے معاشی ممالک میں تیسرے درجے پر جانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ چین پہلے نمبر پر آنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اس حوالے سے ان دونوں ممالک کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو بھی سمجھنا چاہیے‘ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کو اب تک کے اپنے کارناموں اور کامیابیوں پر غرور اور فخر بھی ہے‘ دونوں ممالک امریکا کے تابع نہیں رہیں گے اور بڑی مہارت سے امریکا کی منڈی اور اس سے تعلقات کو بڑھائیں گے تاکہ امریکا کی ان کے ملک میں سرمایہ کاری ہو تاہم کچھ چیزوں میں سرمایہ کاری کے لیے دونوں ممالک بہت محتاط ہیں‘ گزشتہ سال بھارت میں ایک بڑی بین الاقوامی سرمایہ دار کمپنی 90 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھی مگر اس کمپنی نے کچھ خدشات کی بنا پر سرمایہ کاری نہیں کی‘ ہمیں ان دونوں ممالک کی باہمی تجارت کو بھی دیکھنا چاہیے جس کا حجم پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق گزشتہ سال 135.98 بلین ڈالر تھا اور وقت کے ساتھ یہ تجارتی حجم بڑھتا ہی جارہا ہے‘ ان دونوں کا مفاد اس بات میں ہے کہ جنگ نہ ہو‘ بہرحال ان دونوں ممالک کے درمیان مسابقت ضرور رہے گی ۔ فوجی طاقت کا دور تو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ مقبوضہ ریاستیں موجود ہیں جہاں طاقت کی کرنسی چلتی ہے لیکن اس کی بنیاد ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی میں مضمر ہے یہ دونوں ممالک ان شعبوں میں ترقی کی جانب گامزن ہیں، بھارت اپنے مفاد کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی و دیگر چیزیں مغر ب سے لے رہا ہے اس طرح اس کے وقار میں اضافہ ہوگا کہ مغرب کے ساتھ جڑے رہنا بھارت کے مفاد میں ہے، چین کو اس وقت کچھ دشواریاں ہیں تاہم کچھ عرصہ قبل امریکا کے ساتھ اس کی مسابقت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ خطرہ سا محسوس ہونے لگا تھا، اس سلسلے میں دونوں جانب سے کچھ خطائیں بھی ہوئی تھیں، امریکا اور چین ایک دوسرے کی جانب سے محتاط ہیں ‘اس وقت یوکرین کی جنگ میں کون کس جانب جھکاو ٔرکھتا ہے ابھی تک اس معاملے میں چین بہت محتاط دکھائی دیتا ہے بظاہر چین اب تک روس کی مدد نہیں کر رہا‘ اگر چین مدد کر رہا ہو گا تو بہت خفیہ طریقے سے کر رہا ہوگا‘ چین اور بھارت کے درمیان ٹیکنالوجی میں ترقی کی دوڑ میں مسابقت تو ہوسکتی ہے مگر ملٹری وار کا کسی قسم کا کوئی خدشہ موجود نہیں ہے ۔