مزید خبریں

غزہ کا محاز امت مسلمہ کو بیدار کر کے اسرائیل کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری)غزہ کا محاذ امت مسلمہ کو بیدار کرکے اسرائیل کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے ‘ امت مسلمہ پہلے ہی بیدار ہے، مسئلہ مسلم حکمرانوں کا ہے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں‘ حماس کی مسلح مہم جوئی کا مقصد مسلم ممالک کے ضمیرکو جھنجھوڑنا ہے‘ اسلام کا غلبہ طاقت اور وسائل کی کثرت کا محتاج نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے سربراہ شجاع الدین، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید پراچہ، جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سابق امیدوار سید تصور عباس موسوی، شعبہ عربی زبان و ادب جامعہ کراچی کے سابق صدر، صفہ انٹر نیشنل آکسفورڈ انگلینڈ کے پریذیڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مقیم دانشور اعجاز احمد طاہر اعوان اور سینئرکالم نویس مسرور احمد مسرور نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا غزہ کا محاذ امت مسلمہ کی بیداری کا سبب بننے جا رہا ہے؟‘‘ شجاح الدین کا کہنا تھا کہ قرآن حکیم سورہ حجرات میں فرماتا ہے کہ “مسلمان بھائی بھائی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہہے کہ ’’مومنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عضو (حصہ) کو تکلیف پہونچے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے‘‘۔ اس کے باوجود امت مسلمہ کے حکمران بے حسی کا شکار ہیں‘ عرب کے حکمرانوںکا یہ خیال ہے کہ وہ امریکا سے بہتر تعلقات استوار کرکے اور اسرائیل کو بطور ریاست قبول کرکے اپنی بادشاہت کو بچا لیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ 34 مسلم ملکوں کا فوجی اتحاد پتا نہیں کہاں چلا گیا جس کے سربراہ ہمارے ماضی کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے‘ ایران اور افغان طالبان کی طرف سے اچھے بیانات ہیں البتہ مسلم امہ کی عوام بیدار ہے۔ حماس کی مہم جوئی کا مقصد سعودی عرب، یو اے ای دیگر عرب اور مسلم ممالک کو جھنجھوڑنا تھا تاکہ وہ مسئلہ فلسطین کو پس پشت نہ ڈالیںجو مسلح فلسطینی تنظیم کا درست قدم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام کی امامت کروائی تھی‘ حماس کی حمایت میں اسلامی ممالک میں مظاہروں کا ہونا خوش آئند بات ہے اور اللہ کرے‘ہمارے مسلم حکمران بھی جاگیں‘اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں‘اس سیبہت اثر پڑے گا۔ ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ یقینا حماس کا اسرائیل پر چڑھائی کرنا امت کی بیداری کا سبب بن سکتا ہے‘ بہت بڑی ایمانی جرأت کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ جذبہ جہاد کے ساتھ شوق شہادت لے کر اس کی قابض سرحدوں پر گھسے ہیں‘ یہود کا اتنا بڑا نقصان کیا ہے کہ قریب کی تاریخ میں اتنا بڑا ان کا نقصان نہیں ہوا‘ جتنا حماس نے چند دنوں کے اندر ان کا کردیا ہے۔ گویا ان کے ہر گھر میں ماتم ہے اور ہر گھر کے اندر زخمی ہے۔ یقینا اس کے نتیجے میں امت کے اندر ایک بیداری پیدا ہوگی اور مسلمانوں کے دل سے یہود و نصاریٰ کا خوف نکل جائے گا‘ اسرائیل نے فلسطین کی آبادی کو نشانہ بنایا ہے، اس کے باوجود حماس نے بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہر بندہ اسرائیل سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے بے تاب ہے اور کبھی بھی امریکا اور یورپ کے لیے فلائٹس شروع ہو سکتی ہیں‘ مسلمانوں کی بیداری میں ہمارے اپنے حکمران رکاوٹ ہیں‘ اگر ہمارے حکمران بھی اسی جرأت کا مظاہرہ کریں تو ان بڑی بڑی نکلنے والی ریلیوں کو جہاد اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے استعمال کیا جا سکتاہے ‘ اسرائیل کو جواب مسلم ممالک کی منظم فوج ہی دے سکتی ہے۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ حماس نے غزہ میں اہم محاذ کھولا ہے ‘ اس نے ساری دنیا اور خصوصاً مسلم امہ میں بڑی بیداری کی تحریک پیدا کردی ہے‘ آج تمام مسلم ممالک میں حماس اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں‘ اس کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے‘ مسلمان سڑکوں پر نکل آئے ہیں‘ الحمد اللہ اس میں غیر مسلم بھی ساتھ ہیں۔ جس طرح سے غزہ میں حماس کے مجاہد جہاد کے جذبے اور شوق شہادت سے میدان میں نکلے ہیں یہ ایک معجزہ ہی ہے کہ ایسے حالات میں جبکہ اسرائیل کی طاقت سے عرب دنیا کے تمام ممالک ڈر رہے ہیں اور اس کی بالادستی قبول کررہے ہیں‘ ایسے وقت میں اس کے سامنے کھڑا ہونا، نکلنا، للکارنا اور ان کی سرحدوں میں گھس کر لڑنا، ان پر حملے کرنا بہت بڑے ایمان کی بات ہے۔ ان شاء اللہ جلد مسلم امت میں بیداری آئے گی اور یہ حکومتیں جو ہمارے اوپر مسلط ہیں ان سے بھی نجات ملے گی‘ امت کے اتحاد، فلسطین، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کے لیے راہیں بھی کھلیں گی۔ ڈاکٹر اسامہ رضی کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ تو الحمداللہ پوری دنیا میں بیدار ہے لیکن اصل مسئلہ امت مسلمہ پر قابض اور مسلط حکمرانوں کا ہے جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ مسلم ممالک کی زبردست سیاسی و عسکری طاقت ہونے کے باوجود فلسطین اور کشمیر کے مسلمان بے یار ومددگار ہیں‘ اصل مسئلہ مسلم حکمرانوں کی بیداری کا ہے‘یہ مالی و ذاتی مفادات کی سیاست کرتے ہیں‘ حکمران طبقہ مسلم امہ کی ترقی اور اس کے غلبے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کاش یہ ہوش کے ناخن لیں ورنہ اس کے بغیر مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوگا۔ روس کی افغانستان میں پسپائی کے بعد مسلم امہ سپر پاور کے طور پر ابھر سکتی تھی لیکن ہمارے حکمرانوں نے یہ موقع ضیاع کردیا۔ مسئلہ کشمیر اور فلسطین نے ہمارے حکمرانوں کی منافقت کو بے نقاب کیا ہوا ہے۔ ہزاروں انسان مسلسل مارے جا رہے ہیں اور کوئی ان کے حق میں بولنے اورکھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو لاکر خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مشرق وسطی میں اسرائیل اور سعودی عرب میں دوستی کروائی جا رہی ہے‘ امریکا ایک طرف بھارت اور دوسری طرف اسرائیل کی بالادستی قائم کرکے مغربی اور امریکی حکمرانی کو مستحکم کر رہا ہے۔ ان تمام حقائق کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود امت مسلمہ بے بس ہے کیونکہ اس کو حکمرانوں کے ذریعے غلامی کی زنجیریں پہنا دی گئی ہیں۔ تصور عباس موسوی نے کہا کہ اللہ کرے کہ غزہ کے موجودہ حالات عالم اسلام کی بیداری کا سبب بن جائیں لیکن اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک مسلم حکمران قرآن کریم کی طرف رجوع نہیں کریں گے، اس وقت تک ایسا ہونا ممکن نہیں ہے‘ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے، اب قرآن کریم کی بات تو اٹل ہے، اس سے انحراف کا مطلب تباہی ہے۔ اگرچہ کسی حد تک مسلم دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی ہے البتہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا یک آواز ہو اور پوری قوت سے یہودیوں کو یہ پیغام دیں کہ بس بہت ہو چکا ‘اب ہم سب فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اگر اسرائیل نے جارحیت اور قتل عام بند نہ کیا تو مشرق وسطیٰ کے تمام مسلم ممالک اس کے خلاف ہر طرح کی طاقت استعمال کریں گے‘ اگر مسلم ممالک نے فلسطینیوں کو پشت دکھائی تو فلسطینی عوام پھر بھی فتحیاب ہوں گے انشاء اللہ، صرف اتنا ہے کہ ان کو قربانی زیادہ دینی پڑے گی۔ اسحاق منصوری کا کہنا تھا کہ7 اکتوبر کو حماس کا اسرائیل پر راکٹوں سے بھر پور حملہ پوری امت مسلمہ کی بیداری کا سبب بن گیا ہے‘ مذاکرات در مذاکرات کے چکروں میں اسرائیل اور اس کے ظالم حمایتیوں نے مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے ظلم و ستم اور درندگی کو بالکل پس منظر میں ڈال دیا تھا ‘دنیا مسئلہ فلسطین کو بھلا چکی تھی اور کئی مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرنے لگے تھے ، ایسے حالات میں فلسطین کے بہادر نڈر مجاہدین نے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر7 اکتوبر کو اسرائیل پر چاروں طرف سے راکٹوں کا جو بھرپور حملہ کیا ہے اس نے دنیا کی توجہ مسئلہ فلسطین کی مرتکز کردی ہے‘ پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں امریکاکی قرارداد مکمل طور پر مسترد کردی گئی‘ صرف امریکا کی نمائندہ خاتون کا ایک ووٹ ملا جبکہ فلسطین کے مجاہدین کے حق میں کویت کی قرارداد کو11 ووٹ ملے‘ ایران، ترکی، قطر، سعودی عرب اور چین سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے مظلوم فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دینے کی کھل کر حمایت کی اور فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ تسلیم کیا جا رہا ہے‘ امریکا نے اسرائیل کی حمایت میں اپنے بحری بیڑے اور ہوائی جہاز اور اسلحہ بھیج دیا ہے‘ پاکستان کی حکومت اور فوج کو فلسطین میں جہاد کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ او آئی سی کے تمام ممالک اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنی افواج میدان جنگ میں اترنے اور فلسطینی مجاہدین کی مدد کا باقاعدہ اعلان کریں۔اعجاز احمد طاہر اعوان نے کہا کہ اسرائیل دنیا کے سینے پر ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ مسلمانوں کی سر زمین پر اس مملکت کا قیام مغربی ممالک کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے‘ مغربی دنیا یہودیوں کے مستحکم مالی حالات، تجارتی و معاشی معاملات میں بالادستی اور اس بالادستی کے ذریعے ان کی سیاست اور حکمرانی میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف تھی۔ اس لیے یہودی ملک کے قائم کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو عیسائی اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے لیے بھی مقدس تھی کیونکہ ایسی جگہ پر ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو ابھار کر جھگڑا آسانی سے کرایا جا سکتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا ہے‘ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک مستقل تنازع پیدا ہو گیاہے۔ دنیا کے دیگر ممالک نے اس تکلیف دہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا جو اقوام متحدہ کی آزاد فلسطین کی قرار دادوں کی صورت میں 1966ء میں ثمر آور ہوا چونکہ مغربی ممالک اقوام عالم کی اس تحریک کو پسند نہیں کرتے تھے لہٰذا انہوں نے فلسطینیوں کے لیے ریاست کی مخالفت جاری رکھی ہوئی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک ان کوششوں میں آج تک مصروف ہیں کہ کسی صورت فلسطین کی آزاد مملکت قائم ہو جائے تاکہ خطے میں خون ریزی ختم ہو اور امن قائم ہو جائے۔ مسئلہ فلسطین کی وجہ سے تیسری جنگ عظیم کا خطرہ دنیا کے سر پر منڈلانے لگا ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم امہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی ہمدردی میں ہمیشہ سے متحد اور ہم خیال ہے۔ اور اس مقصد کے لیے سیاسی اور حربی جدوجہد کی حامی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ بدقسمتی سے ان مسلم ممالک کے حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ یہ حکمران اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے اپنے عوام کے بجائے طاقت ور مغربی ممالک اور امریکا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مسرور احمد مسرور نے کہا کہ حماس نے جس انداز میں اسرائیل کے ناقابل شکست دفاعی حصار کو توڑ کر ان کے گھر میں گھس کر انہیں ذلت اور رسوائی سے دوچار کیا ہے، اس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا غلبہ طاقت اور وسائل کی کثرت کا محتاج نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صدی اسلام کی نشاطِ ثانیہ کی صدی ہے۔ اس کا آغاز غزہ سے ہو چکا ہے۔ مسلم ممالک کو اس مرحلے پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کو ختم کرتے ہوئے مسلم امہ کے وسیع تر مفاد کے لیے متحد ہوجانا چاہیے۔ اسرائیل کی پشت پر ایک امریکا نہیں کئی امریکا بھی آجائیں تو شکست ان کا مقدرہوگی۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام غزہ، حماس، حزب اللہ اور فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی میں شاہراہ فیصل پر فلسطین مارچ منعقد ہوا جس میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جہاد کے جذبہ کو سراہا گیا کیونکہ اس سے امت مسلمہ میں بیداری کا عنصر جاگ چکا ہے‘ فلسطین مارچ میں اس امید کا اظہار کیا گیا کہ اب مسلمان قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کراکر ہی دم لیں گے۔ حرمین شریفین میں جس طرح یہود و نصاری کے لیے بددعا اور حماس و فلسطینی مجاہدین کی کامیابی کے لیے رقت کے ساتھ دعائیں کی گئی ہیں وہ ان شاء اللہ جلد رنگ لائیں گی۔