مزید خبریں

مسجد میں نکاح کی تقریب

سوال: میری بیٹی کا نکاح تین برس قبل شرعی طور پر انجام دیا گیا۔ مسجد میں نکاح ہوا۔ غیر اسلامی رسوم، لین، دین، جہیز وغیرہ سے اجتناب کیا گیا۔ اس وقت سے خاندان میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنا کہاں تک جائز ہے؟ یہ تو نئی بدعت ہے۔ صحابہ کرامؓ کے نکاح مسجد میں ہوئے ہوں، یہ ثابت نہیں ہے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: رسولؐ نے نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: ’’بہترین نکاح وہ ہے جو بہت سہولت اورآسانی سے انجام پائے‘‘۔ (ابوداؤد: 2177) اسی طرح آپؐ نے اس کا بھی حکم دیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے اوراس کی تشہیر کی جائے، تاکہ آبادی کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’نکاح کا اعلان کرو‘‘۔ (احمد: 16130)

آج کل مسلم معاشرے میں نکاح کو دشوار بنادیا گیا ہے۔ اس پر اتنا صرفہ آتا ہے کہ اوسط یا معمولی آمدنی والے شخص کو اس کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اورکافی سرمایہ اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ لڑکی کے نکاح کا معاملہ ہو تو وہ اس کے سرپرست کے لیے اور بھی دشوار اور پریشان کن رہتا ہے۔ اس لیے کہ برات کی خاطر مدارات، جہیز اور دیگر رسوم کی ادائیگی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے لیے بسا اوقات قرض تک کی نوبت آجاتی ہے۔

فقہاء نے مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ اس سے دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں: ایک تو نکاح بہت سادگی سے انجام پاتا ہے، دوسرے اس کی تشہیر بھی ہوجا تی ہے، البتہ انہوںنے تاکید کی ہے کہ تقریبِ نکاح کی انجام دہی کے دوران میں مسجد کے تقدس و احترام کا خیال رکھا جائے، شور وشغب نہ ہو، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کی جائیں، وغیرہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ کویت، بحوالہ فتح القدیر، جواہر الاکلیل، الشرح الکبیر مع حاشیہ الدسوقی وغیرہ)

اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے، جوام المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:’’نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ‘‘۔ (ترمذی: 1089)

اس حدیث کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون الانصاری کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے. (فتح الباری، المکتبۃ السلفیہ) البتہ اس کا ابتدائی حصہ (نکاح کا اعلان کرو) دیگر روایتوں سے ثابت ہے، اس لیے صحیح ہے۔

مسجد میں تقریبِ نکاح منعقد کرنے کو حکمِ نبوی ثابت کرنا تو درست نہیں، لیکن اسے بدعت کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ عہدِ نبوی میں مسجد کو نماز کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، مثلاً تعلیم وتربیت، معاملات کے فیصلے، حدود و تعزیرات کا نفاذ وغیرہ۔ اس بنا پر اگر مسجد کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تقریبِ نکاح منعقد کی جائے تو وہ نہ صرف جائز، بلکہ بعض پہلوؤں
سے پسندیدہ ہے۔