مزید خبریں

نواز شریف کی واپسی یقینی ہے‘ مقتدر قوت سے ڈیل نہ ہونیکی وجہ سے خوف زدہ ہیں

اسلام آباد ( میاں منیر احمد)نواز شریف کی واپسی یقینی ہے‘ مقتدر قوت سے ڈیل نہ ہونیکی وجہ سے خوف زدہ ہیں ‘واپسی کومحفوظ سمجھیں گے تو واپس آئیں گے‘ ن لیگ اپنے قائدسے ملکی حالات چھپا رہی ہے ‘ سابق وزیراعظم کے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘نواز شریف کی آمد سے انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کے بادل بھی چھٹتے نظر آ رہے ہیں۔کیا اب نواز شریف کی واپس آمد یقینی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے تجزیہ کار عظیم چودھری، تجزیہ کار عبد الودود قریشی، بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، تجزیہ کار معروف کالم نگار ڈاکٹر فاروق عادل، تجزیہ کار اعجاز احمد اور اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر رکن بلال احمد سے رابطہ کیا گیا۔ عظیم چودھری نے کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی در اصل ملک کے سیاسی حالات پر منحصر ہے‘ وہ اگر واپسی کے سفر کو اپنے لیے محفوظ اور بہتر سمجھیں گے تو واپس آجائیں گے۔ عبد الودود قریشی نے کہا کہ نواز شریف پاکستان واپس آ رہے ہیں اور واپس آکر وہ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم چلائیں گے اور انتخابات کے بعد ملک میں 4 جماعتوں کی مخلوط حکومت بنے گی‘ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اور سندھ میں
پیپلز پارٹی کو کام کرنے کی آزادی ہوگی۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کوئی ایشو نہیں ہے وہ آئیں نہ آئیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ سوال یہ ہے کہ کیا وہ واپس آکر جس طرح مسلم لیگ (ن) کہہ رہی ہے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے کیا ان کے وزیر اعظم بن جانے سے ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات بہتر ہوجائیں گے؟ اور ڈالر کی اسمگلنگ ختم ہوجائے گی؟ اگر انہیں حکومت مل گئی تو ڈالر مزید ملک سے باہر چلا جائے گا کیونکہ اسحاق ڈار ان کے وزیر خزانہ ہوں گے۔ڈاکٹرفاروق عادل نے کہا کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی یقینی ہے اور وہ اپنے اعلان کے مطابق 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آرہے ہیں اور ابہام کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اعجاز احمد نے کہا کہ نواز شریف پاکستان واپس آرہے ہیں تاہم وہ خوف زدہ بھی ہیں‘ ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) انہیں ملکی حالات سے مکمل آگہی نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی ان کی پاکستان واپسی کے لیے مسلم لیگ (ن) کی مہم کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے‘ اس کے اپنے کارکن باہر نہیں نکل رہے، نواز شریف اس سے بھی پریشان ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ابھی تک کسی مقتدر قوت کے ساتھ مفاہمت جیسی بات کوئی نہیں ہوئی ہے، وہ اس وجہ سے بھی پریشان ہیں تاہم وہ اس کے باوجود پاکستان واپس آرہے ہیں۔بلال احمد نے کہا کہ نواز شریف نے ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، 2018ء میں دھاندلی نہ ہوتی تو آج پاکستان ترقی کے میدان میں بہت آگے ہوتا‘ نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ پارٹی قیادت کی بھرپور مشاورت سے ہوا ہے‘ پورا پاکستان اُن کی واپسی کا منتظر ہے، اُن کی واپسی پر ترقی کا سفر دوبارہ سے شروع ہو گا‘ نواز شریف کو اقتدار سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ عوام کو ترقی اور خوشحالی سے دور کر دیا گیا۔ نواز شریف نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا، ایٹمی دھماکا نہ کرنے کی صورت اُنہیں 5 ارب ڈالر کی آفر ہوئی تھی لیکن اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کا مفاد سب سے پہلے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر سے انتخابات پر پیپلز پارٹی کے تحفظات کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،آئینی مدت پوری کر کے اسمبلی تحلیل کی گئی‘ اُمید ہے کہ الیکشن کمیشن نئی مردم شمای کے تحت انتخابات کرا کے اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔ سابق وزیراعظم پاکستان واپسی سے قبل عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جائیں گے اور پھر جدہ سے لاہور پہنچیں گے، نواز شریف 19نومبر 2019ء کو علاج کے لیے لندن گئے تھے،وہ لگ بھگ 4 سال بعد وطن واپس آ رہے ہیں۔ اُن کی وطن واپسی کے اعلان نے ملک کے سیاسی ماحول میں ہلچل مچا دی ہے تاہم ماضی قریب میں ان کی اتحادی جماعت کی زبان سے دبے دبے گلے شکوے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ نواز شریف جن حالات میں واپس آ رہے ہیں وہ یقینا اُن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوں گے۔ اُن کی وطن واپسی سے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے چھائے بے یقینی کے بادل بھی چھٹتے نظر آ رہے ہیں، نواز شریف کی واپسی کے بعد ملک میں سیاسی لہر تیز تر ہو گی۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ صحت مند سیاست کے فروغ میں وہ بھرپور کردار ادا کریںگے۔