مزید خبریں

مالی معاملات میں شفافیت

سوال: اگر کوئی شخص اپنی دفتری ذمے داریوں سے زائد وقت دیتا ہے لیکن جس ادارے میں وہ کام کرتا ہے وہ اس زائد کام کا الگ سے کوئی معاوضہ نہیں دیتا۔ یہ زائد کام اگر کسی اور سے کرایا جاتا تو اسے معاوضہ ادا کرنا پڑتا، کیا وہ شخص اس زائد کام کے بدلے ادارے کے فنڈ سے کچھ رقم اپنے لیے لے سکتا ہے؟
اسی طرح اگر ادارے کی جانب سے کسی کام کے لیے کچھ فنڈز مختص کیے گئے ہوں، اس کام کے لیے مارکیٹ میں لوگ زیادہ معاوضہ طلب کرتے ہوں، وہ شخص اپنی ذاتی کوشش یا اثر رسوخ سے اس کام کو کسی سے سستے داموں میں کروالے تو کیا اخراجات سے بچ جانے والی رقم وہ خود لے سکتا ہے؟
جواب: دفتری ذمے داریاں اور ان کی انجام دہی کی صورت میں ملنے والا معاوضہ دونوں ایک معاہدے کا نتیجہ ہوتے ہیں، جس کی پابندی کام لینے والے اور کام کرنے والے دونوں کو کرنی ہوتی ہے۔ یہی دین و ایما ن کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! معاہدوں کی پابندی کرو‘‘۔ (المائدہ: 1)
’عقود ‘ (معاہدوں) میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو انسانوں اور ان کے رب کے درمیان طے پائے ہیں اور وہ بھی جو انسانوں کے درمیان آپس میں کیے جاتے ہیں۔ کسی معاہدے کے نتیجے میں جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی ادائیگی ذمے دار کو محنت، لگن، سنجیدگی اور خیرخواہی کے جذبے سے کرنی چاہیے۔ آفس کے اوقات عموماً متعین ہوتے ہیں۔ ذمے دار کو آفس میں آمد ورفت کے متعینہ اوقات کی پابندی کرنی چاہیے۔ ان اوقات میں دفتری کاموں کے علاوہ دیگر کاموں یا نجی مصروفیات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بسا اوقات بعض کام فوری انجام دہی کا تقاضا کرتے ہیں، ضرورت ہوتی ہے کہ انھیں جلد از جلد مکمل کرلیا جائے۔ اس بنا پر ذمے دار کو کبھی آفس کے متعینہ اوقات سے زیادہ وقت دینا پڑتا ہے۔ ذمے داری سے انصاف اور خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ وقت کی پروا کیے بغیر اسے انجام دینے کی کوشش کی جائے۔
اگر کوئی شخص دفتری کاموں کی انجام دہی میں متعینہ اوقات سے زیادہ وقت لگاتا ہے تو یہ اس کا ’احسان‘ ہے، جس پر وہ بارگاہ الہی میں اجر کا مستحق ہوگا، البتہ اسے اس کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے ذمے دار سے زائد وقت کا الگ سے معاوضہ طلب کرے۔ مثال کے طور پر کسی شخص سے معاہدہ ہوا ہے کہ وہ روزانہ آٹھ گھنٹے آفس میں رہ کر کام کرے گا۔ اگر کبھی اسے کسی کام کے لیے بارہ گھنٹے لگ جائیں تو وہ چار گھنٹے کا الگ سے معاوضہ طلب کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس دفتر کا کوئی فنڈ ہو تو وہ اپنے طور پر ذمے دار کے علم اور اجازت کے بغیر اس میں سے زائد وقت کا اضافی معاوضہ وصول کرلے۔ اس لیے کہ یہ دھوکا اور امانت میں خیانت ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:
’’جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (مسلم)
’’اس شخص کا ایمان معتبر نہیں جو ایمان دار نہ ہو‘‘۔ (مسند احمد)
اسی طرح کسی ادارے سے وفاداری اور خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ اس کا ہر کام اعلی معیار سے اور مناسب معاوضے پر کروایا جائے۔ نہ تو ایسا ہو کہ جیسے تیسے الٹے سیدھے کام پورا کرکے اس سے پیچھا چھڑالیا جائے، نہ اس پر بلا ضرورت زیادہ پیسہ خرچ کیا جائے۔ نہ کسی شخص سے وہ کام مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ کم پر کروانے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے کہ ایسا کروانے کی صورت میں اس کام کے غیر معیاری ہونے کا قوی اندیشہ ہوگا۔ بہرحال اگر کوئی شخص آفس کا کوئی کام کسی شخص سے مارکیٹ ریٹ سے کم پر کروالے تو اس کے لیے اخراجات سے بچ جانے والی رقم خود رکھ لینا جائز نہ ہوگا۔
مالی معاملات میں شفافیت کو ملحوظ رکھنا دین کا تقاضا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا میں بھی عزت وآبرو محفوظ رہتی ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں ذرا بھی کوتاہی سے بسا اوقات دھوکا دہی اور غبن کے الزامات لگ جاتے ہیں اور آدمی سماج میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جاتا۔ اس لیے ایسے کاموں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔