مزید خبریں

رُخصت ورعایت

محمد بن منکدر سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نے امیم بنت رقیقؓ کو کہتے سنا: میں کچھ عورتوں کے ساتھ نبیؐ کے پاس بیعت کرنے آئی، آپؐ نے ہم سے بیعت لیتے ہوئے فرمایا: ’’جس کی تم استطاعت اور طاقت رکھو‘‘۔ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہمارے ساتھ اس سے زیادہ مہربان ہیں جتنا خود ہم اپنے ساتھ ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)
اطاعت کا عہد لینے والا جب خود یہ شرط لگائے کہ اسی حد تک اطاعت کرنا جس حد تک استطاعت ہو، تو یہ ضرور تعجب خیز مسرت کی بات ہے۔
استطاعت کے حدود کے اندر حکم جاری کرنا ایک بڑی مہربانی ہے، اور حکم کی اطاعت کے ساتھ استطاعت کی شرط اپنی طرف سے لگادینا ایک اور بڑی مہربانی ہے، قرآن وسنت کا مطالعہ کرتے ہوئے دین کے احکام میں اللہ تعالی کی یہ دونوں مہربانیاں بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔
اسلام کا بہت نمایاں امتیاز ہے کہ وہ دین رحمت ہے، اور قرآن مجید کی بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ از اول تا آخر کتاب رحمت ہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ہر لحظہ انسان اپنے آپ کو رحمت کے آغوش میں پاتا ہے۔ اللہ کی کتاب اللہ کی بے پایاں رحمت کا حسین وجمیل اظہار ہے، اس میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ سب احکام رحمت ہیں، ان احکام کو جس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے، وہ اسلوب بیان خود ان احکام پر چھائی ہوئی رحمت کی عکاسی کرتا ہے، زیر نظر مضمون میں قرآن مجید کے احکام میں رحمت کے بعض پہلووں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
اس تحریر سے اس امر کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ قرآن مجید کے اسلوب رحمت کو ہمارے یہاں دینی تعلیم ودعوت کا اسلوب بنایا جائے، بندوں کے ساتھ جو رحمت ونرمی احکام الہی کے اصل متن میں نظر آتی ہے، اسلوب وانداز کی وہی رحمت ونرمی احکام الہی کی ترجمانی کرنے والے معلمین، مبلغین اور اہل دعوت وافتاء کے یہاں بھی عام ہوجائے۔ ایسا تضاد ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کتاب الہی کی تعلیمات رحمت کے دل نواز اسلوب میں ہوں، اور اسی کتاب الہی کی ہماری ترجمانی محبت ونرمی سے عاری اور سختی ودرشتی سے آلودہ نظر آئے۔
اس تحریر کا ایک اور مقصد دین کے ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ کرنا ہے، وہ یہ کہ دین کی دو سطحیں ہیں، ایک سطح عام حالات میں عمل کرنے کی ہے، اور ایک سطح مخصوص حالات میں عمل کرنے کی ہے، جب عام حالات والی سطح پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، یا زیادہ دشوار ہو۔ اسلام بے دینی کی گنجائش نہیں رکھتا ہے، وہ ہر حال میں دین پر عمل پیرا رہنا لازم قرار دیتا ہے، البتہ دشواری کی صورت میں وہ حسب حال آسان صورتیں پیش کرتا ہے، اس سے بے دینی کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ اگر عوام میں دین کی دونوں سطحوں کا علم پختہ ہوجائے تو وہ کسی بے چینی اور اضطراب کے بغیر حسب حال دین پر عمل پیرا رہ سکیں گے۔ اور دین حق سے نہ کسی کو شکایت کا جواز ملے گا، اور نہ ہی اس پر کسی طرح کا اعتراض چسپاں ہوسکے گا۔ ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ دنیا کی تخلیق اور صورت گری اللہ نے کی ہے اور ہدایت بھی اللہ نے بھیجی ہے، دنیا کے حالات اللہ نے دو طرح کے رکھے ہیں، معمول کے حالات جن میں زندگی گزارنا آسان ہوتا ہے اور معمول سے ہٹے ہوئے حالات جن میں زندگی گزارنا مشقت طلب ہوتا ہے، حالات کی دو قسموں کی طرح اللہ نے دین کے احکام بھی دو طرح کے دیے ہیں، معمول کے حالات میں انجام دیے جانے والے احکام اور معمول سے ہٹے ہوئے حالات میں انجام دیے جانے والے احکام۔ زندگی کے حالات کے تناظر میں دین کے احکام کو دیکھنے سے دین پر ایمان ویقین کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی نگاہوں سے یہ پہلو اوجھل رہتا ہے، یا وہ جان بوجھ کر اس سے تجاہل برتتے ہیں، وہ کورونا جیسے حالات میں اس طرح شور مچاتے ہیں گویا دین کے خلاف کوئی بڑی حجت ان کے ہاتھ آگئی۔
درحقیقت یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے اور اس کے دین حق کی بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے بندوں سے اطاعت بشرط استطاعت، بقدر استطاعت اور بشکل استطاعت کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح اس دین کو زمان ومکان اور حالات سے مکمل ہم آہنگی کی صفت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ قیامت تک آنے والے تمام حالات کے لیے قابل عمل رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں دین کے اس روشن پہلو کو لوگوں کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ لانا بہت ضروری ہوگیا ہے، تاکہ حالات سے مایوسی اور دین سے بے تعلقی پھیلنے کے بجائے دین سے رغبت اور رب رحیم کی طرف انابت بڑھے۔
اس تحریر کے ذریعے قرآن مجید کے قلبی مطالعے کی راہیں روشن کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ جن آیتوں میں خاص طور پر اللہ کی رحمت کو دکھانا مقصود ہوتا ہے وہاں تو اللہ کی بے پایاں رحمت کے جلوے دل ونگاہ کو خوشی اور مسرت سے معمور کرتے ہی ہیں، تاہم جن آیتوں میں اللہ کی اطاعت کا حکم ہوتا ہے، ایسی خالص احکام کی آیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اللہ کی رحمت کو کس قدر قریب محسوس کیا جاسکتا ہے، اور اس سے ایک مومن کتنا زیادہ لطف اندوز ہوسکتا ہے، یہ قرآن مجید کے قلبی مطالعہ کا ایک خاص پہلو ہے۔ قرآن مجید کا عقلی مطالعہ احکام الہی میں پنہاں حکمتوں کو دریافت کرنے کی راہیں دکھاتا ہے، اور قرآن مجید کا قلبی مطالعہ احکام الہی میں موج زن اللہ کی رحمت کو محسوس کرنے کا موقع دیتا ہے، کہ ہمارا رحمان ورحیم رب ہم سے قریب، ہم پر مہربان اور ہماری ان کم زوریوں اور مجبوریوں کا علم اور خیال رکھنے والا ہے جن کا خیال کبھی خود ہمیں نہیں ہوتا۔
دین کے احکام کا سب سے نمایاں پہلو تو یہ ہے کہ تمام احکام انسانوں کے لیے اللہ کی طرف سے انمول تحفے ہیں، ان میں سارے اطاعت گزار انسانوں کے لیے خیر ہی خیر ہے، ہر حکم الہی انسانوں کی کسی بڑی ضرورت کی تکمیل کرتا ہے، اور ساتھ ہی دنیا میں ترقی اور آخرت میں نجات وفلاح کی راہ پر چلاتا ہے، جو انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر ذاتی تدبر وتفکر کے علاوہ ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا جو اسرار شریعت اور مقاصد شریعت کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
دین کے احکام میں اللہ تعالی کی رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دین کا ہر حکم بندوں کی مجموعی استطاعت کے مطابق ہے۔ نماز، روزہ، زکات وصدقات اور حج اور اس قبیل کی تمام جسمانی اور مالی عبادتیں اپنے آپ میں بندوں کی استطاعت کے عین مطابق ہیں۔ ’’اللہ کسی شخص پر اْس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمے داری نہیں ڈالتا‘‘۔ (البقرۃ: 286) اور ’’اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اْسے مکلف نہیں کرتا‘‘۔ (الطلاق: 7) دین کے دو ممتاز جامع اصول ہیں، جو اللہ تعالی کی رحمت کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں، پہلے اصول کا تعلق انسان کی عمومی استطاعت سے ہے، اور دوسرے اصول کا تعلق انسان کو میسر سامان زندگی سے ہے۔ ان دونوں اصولوں کا پرتو دین کے تمام احکام پر نظر آتا ہے۔
دین کے احکام میں اللہ تعالی کی رحمت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ دین کے ہر حکم کے ساتھ یا تو استطاعت کی قید لگی ہوئی ہے، یا تیسیر کا انتظام ساتھ ہی منسلک ہے۔ یعنی یا تو حکم دینے کے ساتھ ہی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ استطاعت ہو تبھی عمل کرنا، یا یہ بتادیا گیا ہے کہ اس صورت کی تعمیل نہ ہوسکے تو آسانی کی یہ صورت اختیار کرلینا۔پہلی بات حج کی مثال سے سمجھ میں آتی ہے، فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو وہاں تک پہنچ سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے‘‘۔ (اال عمران: 97) اللہ تعالی نے حج کی عبادت فرض کی جو مجموعی طور پر بندوں کی استطاعت میں داخل ہے، دور دراز کے سفر کرنا اس دنیا میں انسانوں کا معمول ہے۔ البتہ حج کا سفر ہر انسان کی استطاعت میں نہیں ہوتا ہے اس لیے استطاعت کی قید بھی لگادی۔
دوسری بات نماز کی مثال سے سمجھی جاسکتی ہے، ایک موقع پر عمران بن حصینؓ نے رسولؐ سے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہوکر نماز پڑھو، نہیں کھڑے رہ سکو تو بیٹھ کر، اور بیٹھ بھی نہیں سکو تو کروٹ پر۔ (صحیح بخاری) نماز بہت آسان عبادت ہے، عام طور سے انسانوں کی استطاعت کے اندر ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی نماز کا آسان عمل بھی انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو تو تیسیر کے عمل کے ذریعے آسان نماز کو اور زیادہ آسان بنادیا جاتا ہے۔ غرض عمل کو استطاعت کے ساتھ مشروط کردیا جائے، یا تیسیر کے ذریعہ اسے اور زیادہ آسان کرنے کا انتظام کردیا جائے، ہر دو صورتوں میں اللہ کی رحمت انسانوں پر سایہ فگن نظر آتی ہے۔
دین کے احکام میں اللہ کی رحمت کا ایک حسین مظہر یہ ہے جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے، جس کی انجام دہی میں انسانوں کے لیے کبھی کوئی مشقت کا پہلو نکل سکتا ہو، تو اس سلسلے میں استثنائی رخصت بھی حکم کے ساتھ ہی نازل ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے تمام احکام کا استقرائی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عمومی حکم نازل ہوا ہو، بندوں کو اس کی انجام دہی میں مشقت پیش آئی ہو، ان کی طرف سے رخصت کا مطالبہ ہوا ہو، اور پھر استثنائی رخصت نازل ہوئی ہو۔ بلکہ ہمیشہ ایسا ہوا کہ عمومی حکم کے ساتھ ہی اور زیادہ تر اسی ایک آیت میں، اور کبھی کبھی اسی مجموعہ آیات میں استثنائی حالات کا تذکرہ بھی اللہ کی طرف سے ہوا، اور ان حالات کے لیے رخصت بھی اللہ کی طرف سے آئی۔ اس طرح کی بہت سی آیتوں کو آگے نقل کیا جائے گا۔ درحقیقت یہ اللہ کی رحمت کا بہت ہی لطیف اور دل موہ لینے والا انداز ہے، کہ وہ بندوں کے حالات کو بندوں سے زیادہ جانتا ہے، اور بندوں سے زیادہ بندوں پر مہربان ہوتا ہے۔