مزید خبریں

ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کے چنائو میں کارکردگی کو معیار نہ بنانا سوالیہ نشان ہے ؟

پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانی سیاست میں زیادہ فرق نہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جانبداری کا ایک لا متنائی سلسلہ چلا آرہاہے، جو آج بھی قائم ہے۔ اور ہ باقاعدہ اس ورلڈکپ میں بھی نظرآرہا ہے۔ 2019ورلڈکپ کو کون بھلا سکتا ہے۔ جب 2019کے ورلڈکپ سے پہلے آسٹریلیاکے خلاف 5ون ڈے کی سیریز دبئی میں کھیلی جانی تھی اس وقت کے کپتان سرفراز احمد کو ٹیم سے ڈراپ کرکے ان کو آرام کرانے کا نام دیاگیا ، اور شعیب ملک کو کپتان بناکر 5میچوں کی سیریز کھیلی گئی جس میں رضوان احمد کو بطور وکٹ کیپر شامل کیاگیا تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ شعیب ملک بطور کپتان کامیاب ہوجاتے تب سرفراز احمد کو ڈراپ کرکے شعیب ملک کو کپتانی دی جاتی ۔ بورڈ کی بدقسمتی تھی ان کی یہ پالیسی ناکام رہی اور پاکستان یہ سیریز 5-0سے ہار گیا۔ مجبورا سرفراز کو ورلڈکپ کے لیے کپتان بنایاگیا۔ اور ورلڈکپ کا پہلے ہی میچ میںپاکستان 121رنز بناکر آئوٹ ہوگیا۔ اور اس کم رن ریٹ کی وجہ سے پاکستان فائنل میں پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ورلڈکپ کے بعد پاکستان سری لنکا کے خلاف اپنی سیریز 3-0سے ہار گیا اور سرفرازاحمد کو ہمیشہ کے لیے کپتانی سے نہ صرف ہٹا دیاگیا بلکہ ٹیم میں ان کی جگہ بھی نہیں رہی۔بابراعظم گزشتہ 4 سال سے ٹیم کی تینوں فارمیٹ میں کپتانی کررہے ہیںپھر بھی ان کی کپتانی پر بہت سے سوالیہ نشا ن ہیں۔ افغانستان کے خلاف 3میچوں کی سیریز اور ایشیا کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم اور کپتان پر سوالیہ نشان ہیں۔افغانستان اور ایشیا کپ میں ٹیم اور پلیئر کی ناقص کارکردگی کے بعد بھی ان ہی کھلاڑیوں کو چیف سیلیکٹر انضمام الحق کا دوبارہ ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ فخر زمان مستقل 12اننگز میں اسکور کرنے میں ناکام رہے اور زیادہ سے زیادہ اسکور 27رنز رہا۔ شاداب خان ، محمد نواز بطور بولر مستقل ناکام چلے آرہے ہیں بولر مڈل اوورز میں بولنگ کرنے اور وکٹیں لینے میں ناکام ہیں۔ یہ ناکامی پاکستان کی شکست کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔سلمان احمد آغا نئے کھلاڑی ہیں ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی ضرور ہے مگر ون ڈے میچوں میں یہ مسلسل ناکام رہے۔ اس کے باوجود ان تمام کھلاڑیوں کو ایک مرتبہ پھر ورلڈکپ جیسے ایونٹ میں موقع دیاگیا ۔ ایسا لگتا ہے یہ ٹیم پاکستان کی نہیں کپتان کی ہے اور پیسہ کھلاڑیوں کا ۔ اور کپتان کا ساتھ چیف سلیکٹر دے رہے ہیں۔ ہمارے 3فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی ، نسیم شاہ اور حارث رئوف بلاشبہ دنیا کے بہترین بولرز ہیں ، ہونا یہ چاہے تھا کہ ان کو باری باری کھلاتے رہتے جس سے ا ن کی انجریز کے مواقع کم ہوجاتے ، مگر ان کو نیپال جیسی ٹیم کے خلاف بھی کھلایا اور نتیجہ نسیم شاہ کی انجری کی شکل میں نکلا۔ اور و ہ ورلڈکپ سے ہی باہر ہوگئے۔ بیک اپ میں بھی امان اللہ ، حسنین ، دھانی جیسے بولرز کو نہیں رکھاگیا ، نسیم شاہ نئی گیند شاہین آفریدی کے ساتھ بہت اچھی کرارہے تھے ان کی انجری کے بعد محمد عامرجیسا بولر ہمارے پاس موجود ہے جو نئی گیند کا سب سے بہترین بولر ہے اسکو چھوڑ کر کپتان اور چیف سلیکٹر نے حسن علی کو پک کرلیا۔ حسن علی ماضی میں بھی کبھی پاکستان کے لیے نئی گیند نہیں کراسکا۔ وہ مڈل اوور ز کے بے شک ایک اچھے بولر رہے ، اب پاکستان کے پاس نئی گیند کرانے کیلیے شاہین آشاہ آفریدی کے ساتھ دوسرا کوئی بولر نہیں۔ محمد نواز، شاداب خان کی مسلسل ناکامی کے بعد سلیکٹرز کو چاہیے تھا کہ نواز کی جگہ عماد وسیم اور شاداب کی جگہ ابرار احمد کو ٹیم میں لے آتے ، پھر بھی شاداب نہ صرف ٹیم میں ہے بلکہ ان کو نائب کپتان بھی بنادیاگیا ہے۔ لگتا ہے کہ کپتان کو اسپنر کے ساتھ بیٹسمین بھی چاہیے جو بیٹنگ بھی کرے ، نتیجہ یہ کہ شاداب اور نواز سے بولنگ نہیں ہورہی اور نہ صحیح سے بیٹنگ کرپارہے ہیں۔محمد حفیظ کو ٹیم کی سلیکشن پر اعتراض تھا اس لیے انہوںنے بورڈ کو اپنا استعفیٰ دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جب بورڈ کے چیئرمین ذکاء اشرف جیسے پرچی کے لوگ ہیں تو پھر ایسی ہی ٹیم کی تشکیل کی امید کی جاسکتی ہے۔ بہر حال اب تو یہ ہی ہوگا ٹیم تو بنادی گئی کپتان اور چیف سلیکٹر کے من پسند کھلاڑیوں کی۔ اب اس ٹیم کے لیے تمام پاکستانی قوم دعا گو ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور بھارت میں ہماری عزت قائم رہ جائے۔