مزید خبریں

نواز شریف کی واپسی کا کچھ نہیں پتا‘ باجوہ‘ فیض حمید کا احتساب دور کی بات ہے

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) نواز شریف کی واپسی کا کچھ نہیں پتا‘ باجوہ‘ فیض حمید کا احتساب دور کی بات ہے ‘ سابق وزیراعظم اقتدار میں آکر دونوں کا احتساب کرنیکی کوشش ضرور کریںگے چاہے نتائج کچھ بھی ہوں‘ قائد ن لیگ تو حوالدار کا بھی احتساب نہیں کر سکتے‘ ہماری فوج مضبوط ہے تو ملک محفوظ ہے‘ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان خیالات کا اظہار تجزیہ کار مظہر طفیل، تجزیہ کار اعجاز احمد، تحریک انصاف کے رہنما چودھری محمد افتخار، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق صدر ملک ظہیر احمد،اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر اور ایف پی سی سی آئی کے رہنما سجاد سرور اور فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے رکن اسرار الحق مشوانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا نواز شریف جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا حتساب کر سکیں گے؟‘‘ مظہر طفیل نے کہا کہ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ نواز شریف ملک واپس آرہے ہیں یا نہیں اور دوسرا یہ دیکھنا ہوگا کیا وہ اقتدار میں آرہے ہیں یا نہیں‘ احتساب کا سوال تو اس کے بعد پیدا ہوگا۔ اعجاز احمد نے کہا کہ نواز شریف ضرور ریٹائرڈ جنرل باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کا احتساب کریں گے‘ چاہے مشرف کے احتساب کی مانند انہیں اس بار بھی منہ کی ہی کیوں نہ کھانی پڑے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف کی ڈکشنری میں بلکہ خصلت میں معافی نہیں ہے اور ضد اور انتقام ہے‘ البتہ بات یہ ہے کہ جب آپ کسی کے خلاف مقدمہ چلاتے ہیں تو پھر ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتے ہیں جو نواز شریف کے پاس نہیں ہوں گے‘ اگر عمران خان کے بیان کی روشنی میں کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ عمران خان بھی تو سیاست دان ہے، وہ اپنے بیان کی روشنی میں مقدمے میں فریق بنیں گے یا نہیں بنیں گے یہ تو بعد کی بات ہے‘ ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف اس طرح کی باتیں کرکے کچھ منوانا چاہتے ہیں اور وہ کیا شرائط ہیں یہ بھی سامنے نہیں آسکی ہیں البتہ جہاں احتساب کی بات ہے وہاں نواز شریف سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یہ کام کریں گے اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ چودھری محمد افتخار نے کہا کہ نواز شریف تو ایک حوالدار کا احتساب نہیں کر سکتے یہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا کیسے احتساب کریں گے‘ فوج کو ایسی لڑائیوں سے باہر نکال دینا چاہیے‘ ہماری فوج مضبوط ہے تو ملک محفوظ ہے‘ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ وہاں کی فوج کمزور ہوئی تو وہ آج اس کے نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔ ملک ظہیر احمد نے کہا کہ نواز شریف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمیدکا احتساب ضرور کریں گے جس طرح مشرف کا کیا تھا‘ نتائج کیا نکلے اور اب کیا نکلتے ہیں یہ بعد کی بات ہے۔سجاد سرور نے کہا کہ ہمیں حقائق کی دنیا میں رہنا چاہیے اور دیکھنا ہے کہ ہمارے ملک کے مسائل کیا ہیں؟ ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ انہیں حل کیسے کیا جائے‘ ہمارے مسائل تو کچھ اور ہیں‘ ابھی حالیہ دنوں میں دیکھیں کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے مطابق پاکستان میں موجود افغان شہریوں کی کل تعداد 42 لاکھ 29 ہزار ہے جن میں سے 52.6 فیصد خیبر پختونخوا، 24.1 فیصد بلوچستان، 14.3 فیصد پنجاب، 5.5 فیصد سندھ، 3.1 فیصد اسلام آباد اور 0.3 فیصد آزاد کشمیر میں مقیم ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں6 لاکھ نئے افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں جنگ ختم ہوجانے اور ایک منظم حکومت قائم ہوجانے کے بعد اب ان لاکھوں پناہ گزین افغان شہریوں کی ان کے وطن واپسی وقت کا تقاضا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں منشیات اور دوسری غیر قانونی اشیا کی اسمگلنگ میں ملوث ہے جبکہ پاکستان میں افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی میں بھی یہ صورت حال معاون ہے۔ لہٰذا ریاستی اداروں کی جانب سے افغان شہریوں کی بلاجواز پکڑ دھکڑ کے بجائے جو بالعموم رشوت ستانی کا ذریعہ بنتی ہے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو باہمی افہام و تفہیم سے ان 42 لاکھ پناہ گزینوں کو ایک معقول مدت کے اندر خوش اسلوبی سے ان کے وطن واپس بھیجنے کا بند وبست کرنا چاہیے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے احتساب کی باتیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں ہمیں اپنے اپنے ملک کے اصل مسائل کے حل کی طرف دیکھنا ہوگا۔