مزید خبریں

بھارت چین کا حریف بن کر نہیں ابھرا ،دونوں میں شدید سرحدی کشیدگی ہے

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) بھارت چین کا حریف بن کر نہیں ابھرا، دونوں میں شدید سرحدی کشیدگی ہے‘ دریائوں کے بہائو کی تبدیلی اور سرحدی تنازعات سے لداخ اور ریاست سکم میں دونوں کی افواج حالت جنگ میں ہیں‘ بار بار مذاکرات کے باوجود معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے‘ 1962ء کی جنگ میں امریکی مدد کے باوجود چین کے ہاتھوں بھارت نے ہزیمت اٹھائی‘ اس کے ایک ہزار فوجی ہلاک اور 3 ہزار قیدی بنائے گئے۔ ان خیالات کا اظہارن لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین سید،صحافی انیس فیصل اورپیپلز پارٹی کے سینئر رہنما این ڈی خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا بھارت چین کا حریف بن کر ابھر چکا ہے؟‘‘ مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ بھارت چین کا حریف بن کر ابھر چکا ہے‘ کہا یہ جاتا ہے کہ 2020ء سے چین نے بھارت کے چند علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے حقیقت اس سے مختلف ہے ‘ اصل صورتحال یہ ہے کہ براعظم ایشیا کے2 بڑے ہمسائے اور دنیا میں آبادی کے لحاظ سے 2 سب سے بڑی جوہری طاقتیں، چین اور بھارت ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسائے بیٹھی ہیں‘ دونوں طاقتوں کے نہ صرف آپس میں تنازعات کی ایک تاریخ ہے جن میں کبھی کبھار سلگتی آگ میں چنگاریاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور شعلے بھی بھڑک اٹھتے ہیں‘ اس وقت چین اور بھارت کے درمیان شدید کشیدگی کا ماحول ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً ساڑھے3 ہزار کلو میٹر کی سرحد میں کئی مقامات متنازع ہیں‘ اس پر چین کا دعویٰ ہے کہ یہ ماضی میں چین کا حصہ تھے جس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا‘ چین ایک بڑا ملک ہے، بھارت اس کا مقابلہ کر نے کو شش بھی نہیں کرسکتا ہے‘ ان تنازعات کے سبب دونوں ملکوں کے سرحدی فوجی دستے 6 دہائیوں سے مڈھ بھیڑ کر رہے ہیں۔صحافی انیس فیصل نے کہا کہ ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ “بھارت چین کا حریف بن کر ابھر چکا ہے” لیکن ایسا ہے نہیں، حقیقت یہ ہے کہ 1962ء میں ان دونوں کے درمیان ایک ماہ کی طویل جنگ ہوئی تھی جس میں بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ چین نے بھارت کے کئی ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، ایک ہزار فوجی ہلاک کیے تھے جبکہ3 ہزار جنگی قیدی بنائے تھے۔ چین کے بھی800 فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے‘آج کی طرح اُس وقت بھی چین کے ساتھ بھارت کی جنگ میں امریکا بھی فعال ہو گیا تھا۔ بہرحال بعد میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کی گئیں لیکن اب بھی متنازع سرحد، دریاؤں کے بہاؤ میں تبدیلی اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے تنازعے کی فضا برقرار رہتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ سرحدی علاقے جو چین سے ملتے ہیں اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کہا جاتا ہے۔ اور اس جگہ کئی علاقے دونوں ملکوں کے درمیان متنازع ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی طویل عرصے سے جاری ہے۔ حال ہی میں ہونے والے فوجی تصادم 3 مقامات پر ہوئے ہیں جن میں ایک ’وادی گلوان‘ ہے، دوسرا ’ہاٹ سپرنگ‘ نامی خطہ ہے اور تیسرا علاقہ ’پینگونگ‘ نامی جھیل کے جنوب میں ہے۔یہ تینوں علاقے لداخ میں ہیں۔ موجودہ کشیدگی صرف لداخ کے علاقوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست سِکّم کے شمال مشرقی علاقے ناتھولا میں بھی فوجی حالت جنگ میں آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ حالیہ تصادم کی ایک بنیادی وجہ ’ماضی میں عموماً پر امن رہنے والا دریائے گلوان کا علاقہ اب جنگ کا خطہ بن گیا ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے سب سے قریب ہے اور جہاں بھارت نے دریائے شیوک سے لے کر دولت بیگ اولڈی تک ایک نئی سڑک بنائی ہے جو کہ لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا سب سے زیادہ حساس علاقہ ہے۔ این ڈی خان نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ چین ایک طاقت بن کر دنیا میں ابھر رہا ہے اور اس کا حریف صرف امریکا ہی بن سکتا ہے۔ بھارت اور چین کے سرحدی تنازعات کی تاریخ بھارت کی آزادی سے بھی پرانی ہے اور جمہوریہ بھارت بننے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک ماہ کی طویل جنگ بھی ہو چکی ہے، دونوں کے درمیان ان علاقائی تنازعات کو طے کرنے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ان سرحدی تنازعات کو طے کرنے کے لیے 21 ویں صدی میں دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان 22 مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن معاملہ اب مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔کوہ ہمالیہ کے سلسلے کے پار انڈیا کے شمال مشرقی حصے کی جانب لداخ کے شمال مشرق میں ایک خطے کا نام اکسائی چِن ہے۔ اس کا رقبہ 35 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔یہ خطہ اس وقت چین کے زیرِ انتظام ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ خطہ چین کے خود مختار صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے۔ جب کہ بھارت اسے اپنے زیرِ انتظام لداخ کی یونین ٹیریٹوری کا حصہ قرار دیتا ہے۔عموماً سیاچن گلشیئر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع خطہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس خطے کے کچھ حصے کا دعویدار چین بھی ہے۔ بھارت کی ریاست ہماچل پردیش میں چین کی سرحد پر 2 اور متنازع علاقے ہیں جن میں سے ایک کا نام کورِک شپکی ہے جبکہ دوسرے کا نام کِنّْور ہے۔