مزید خبریں

ڈالر سستا ،لیکن دسمبر کے بعد روپے پر دباؤ بڑھ سکتا ہے؟

فوج کے اقدامات کے نتیجے میں معیشت سست روی سے سنبھل رہی ہے۔ لیکن اس کے برعکس کھانے پینے کی اشیاء سمیت بہت سی چیزوں کی قیمت کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں ایک آٹا کو لے لیں اب بھی مختلف مارکیٹ میں تیزی سے تبدیل وہ رہے ہیں اس وقت مارکیٹوں چکی پر10کلو آٹا1800سے 2000 میں فروخت وہ رہا اور یہ بات تماحکومتی ارکان کو اچھی طرح معلوم ہے ۔جس سے عوام پربوجھ بڑھ ہورہا ہے۔ غیر ضروری درآمدات پرمحاصل بڑھا کرانکی حوصلہ شکنی کرنے کا فیصلہ درست سے جس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس سے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔دوسری جانب معیشت کے معاملے میں سنجیدگی اور حکومت یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ مکمل یکسوئی سے ملک مسائل کے دلدل سے باہر نکالنے پر توجہ دے رہی ہے تاہم حالات نارمل ہونے میں وقت لگے گا۔ نگران وزیراعظم نے بھی برطانیہ میں مقیم پاکستانی اور مقامی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مشورے دیتے ہوئے اسکے فوائد گنوائے ہیں جبکہ انھوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ حکومت اخراجات میں کمی لائے گی اور ریونیو بڑھائے گی تاکہ ملکی معیشت کی حالت بہتر ہوسکے اورعوام کے مصائب میں کچھ کمی آئے لیکن حقیقت یہ ہے وہ خود ایفل ٹاور پر کھانے کھانے میں مصروف ہیں جہاں ان کے خاندان نے جی بھر کر کھایا اور فی 300یورو کے حساب سے عوام کے خزانے سے وصول کیا گیا ۔ اس وقت معاشی اشاریوں اور زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے اورامید ہے کہ صنعت، زراعت، تجارت اور خدمات کے شعبوں میں بہتری آئے گی تاہم اس کے لئے معیشت کوسیاست سمیت ہر چیز پر مقدم رکھنا ضروری ہے۔ سیاسی استحکام کے لئے الیکشن کا جلدازجلد انعقاد ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات جنوری میں ہونگے مگر ابھی تک کسی سیاسی پارٹی نے الیکشن باقائدہ مہم شروع نہیں کی ہے۔ الیکشن جتنی جلدی ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہے تاکہ بے یقینی ختم کی جا سکے۔ عوام اور کاروباری برادری کو ریلیف دینا ضروری ہوگیا ہے جس کا آغاز بجلی کی قیمت کم کرنے سے کیا جائے جبکہ گیس اور پٹرول وڈیزل کی قیمت بھی کم کرنا ضروری ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس اور ایندھن کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے جو ڈالر کی قدر میں کمی سے کچھ کم ہورہی ہے تاہم سستی پیداوار اور برآمدات کے لئے کاروباری لاگت کم کرنا ضروری ہوگئی ہے جس کے بغیرعوام کو ریلف نہیں دیا جا سکتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ بحرانی کیفیت ختم ہوتے ہی حکومت عوام صنعتکاروں اور تاجروں کو ریلیف دینے کا منصوبہ بنائے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستانی کرنسی ’دنیا کی بہترین کرنسی‘ برقرار رہ سکتی ہے؟کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق ’روپے کو مضبوط رکھنے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو ڈالرز بھیجنے پر پانچ فیصد تک سبسڈی دی جائے تو روپے کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ درآمدات، مینوفیکچرنگ اور برآمدات کا کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن امریکی جریدے بلوم برگ کے مطابق ماہ ستمبر میں پاکستانی کرنسی 5.4 فیصد اضافے کی بعد کارکردگی کے حساب سے دنیا کی بہترین کرنسی میں شمار ہو سکتی ہے۔ خبر پر بہت خوش کن نظر آتی ہے لیکن اس خبر پریشانی کا عنصر بھی صاف نظر آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’ماضی میں جس رفتار سے کرنسی نیچے گری ہے، اس سے زیادہ رفتار سے اوپر آئی ہے۔ اگر اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو کاروباری حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

پاکستان کی مارکیٹوں پر نظر ڈالو تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ’مارکیٹ میں غیر یقینی کی کیفیت بڑھ گئی ہے۔ تاجروں کا مال فروخت نہیں ہو رہا۔ کاروبار رک گیا ہے۔ کیش کرنچ آ گیا ہے۔ کاروبار کر نے والوں کا کہنا ہے کہ ڈالر ایک جگہ آکر رکے گا تو پھر خریداری کروں گا۔ سرکار اگر چاہے تو ڈالر ایک دن میں 260 روپے پر لا سکتی ہے اور اسے ایک سال تک اسی ریٹ پر برقرار رکھ سکتی ہے۔ اگر سرکار ڈالر ریٹ ایک سال کے لیے فکس کر دے تو لاکھوں لوگوں کے کاروبار چل سکیں۔‘
پاکستانی روپے کی صورت حال کے حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ ’روپے کو مضبوط رکھنے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو ڈالرز بھیجنے پر پانچ فیصد تک سبسڈی دی جائے تو روپے کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ ایکسپورٹرز کو بجلی، گیس اور دیگر معاملات میں تقریباً 30 فیصد سبسڈی دی جاتی ہے، جسے بند ہونا چاہیے۔ وہ جو برآمدات بینک کے ذریعے کیش کروائیں اس پر کچھ رعایت دی جانی چاہیے۔ ایک لاکھ ڈالرز کی درآمدات کرنے والے کے لیے دو لاکھ ڈالرز کی برآمدات لازمی قرار دی جائیں۔‘

ا سمگلرز اور لگژری گاڑیوں کے درآمد کنندگان کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے سے بھی روپیہ مضبوط رہ سکتا ہے۔ ہنڈی اور حوالے کا سب سے بڑا استعمال ان دو سیکٹرز میں ہے، جس کی وجہ سے ڈالر ریٹ بڑھتا ہے۔ منی ایکسچینج والے خوامخواہ بدنام ہیں۔ عوام اور تاجر برادری یہ کہہ رہی ہے کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ ستمبر میں بیلنس آف پیمنٹ کیسی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ بہتر نہیں ہوئی ہو گی۔ نئے مالی سال میں اب تک ایکسپورٹ میں پانچ فیصد کمی آچکی ہے۔ ترسیلات زر میں 24 فیصد کمی آئی ہے۔ مہنگائی بڑھ کر تقریباً 31 فیصد ہوگئی ہے۔ ایسی صورت حال میں چند دنوں میں روپے کی قدر میں پانچ سے چھ فیصد اضافہ بہت زیادہ ہے۔ انتظامی امور بہتر ہوئے ہیں لیکن ڈالر کنٹرول کرنے کے لیے صرف انتظامی امور سے آنے والی بہتری عارضی ہوتی ہے۔ ملک کو ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے، جس سے دوست ممالک اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے۔اگست 2022 میں مفتاح اسماعیل کے دور میں ڈالر، انٹر بینک میں 240 سے کم ہو کر 213 تک آیا تھا۔ یہ فرق تقریباً 27 روپے کا بنتا ہے۔ پھر یہ بڑھ کر 240 روپے تک پہنچ گیا تھا۔ جب اسحاق ڈار واپس آئے تو ڈالر روزانہ کی بنیاد پر تھوڑا تھوڑا کم ہوتا رہا۔ یہ اکتوبر 2022 میں انٹربینک میں 219 پر آ کر رک گیا۔ یہ کمی بھی تقریباً 21 روپے تھی، لیکن چند ماہ میں یہ بڑھ کر 250 اور پھر 288 تک پہنچ گیا۔ نگران حکومت میں ڈالر انٹر بینک میں تقریباً 307 روپے تک پہنچا اورستمبر کے مہینے میں انٹر بینک میں ڈالر ابھی تک صرف 19 روپے گرا ہے، جو کہ ماضی کی بڑی گراوٹوں کی نسبت کم ہے۔ ’ہر سال ساڑھے سات لاکھ پاکستانی باہر جا رہے ہیں۔ جو باہر جاتے ہیں وہ پراپرٹی بیچ کر جاتے ہیں اور اسے ڈالر میں تبدیل کروا کر باہر بھیج دیتے ہیں۔ ہر ماہ ایک لاکھ پاکستانی عمرہ کرنے جا رہے ہیں، جو ڈالر ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔
’پہلے یہ سالانہ پانچ سو ملین ڈالرز تھا، اب تقریباً ایک ارب ڈالرز سے بڑھ گیا ہے۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی ڈالرز میں کرنی ہے۔ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک راستہ برآمدات بڑھانا، دوسرا ترسیلات زر میں اضافہ اور بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک سیکٹر میں بھی پاکستان نے بہترین کارکردگی دکھائی تو ڈالر کنٹرول میں رہ سکتا ہے۔ بصورت دیگر دسمبر کے بعد روپے پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔‘پاکستان کی ڈالرز میں آمدن تقریباً 60 ارب ڈالر اور خرچ تقریباً 85 ارب ڈالر ہے۔ 25 ارب ڈالرز کا فرق ختم کرنا ایک چیلنج ہے۔‘

اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر ریٹ کے درمیان کم فرق رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اب ڈالر انٹر بینک میں آئیں گے اور دوسرے ذرائع سے بھی ڈالر آئیں گے اس لیے سپلائی سائیڈ بہتر ہوگی تاہم دوسری جانب ڈالر کی طلب بھی بڑھے گی کیونکہ درآمدات پر پابندی ختم ہو چکی ہے اور اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے آنے والے دنوں میں بڑی کمی کا امکان نظر نہیں آرہا ہے ۔ ڈالر کا ریٹ 275 اور 285 کے درمیان طے ہو سکتا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے لیکن ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کی توقع کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف کے پیسے آنے کے بعد امکان ہے ڈالر کا ریٹ 250 روپے تک آ جائے۔ لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے ڈالر ریٹ 270 سے کم ہو گا کیونکہ آنے والے دنوں میں ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھنے سے یہ 270 سے 280 کے درمیان ٹریڈ کرے گا۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت درآمدات پر پابندیاں ہٹ چکی ہیں اور ڈالر کی طلب میں آنے والے دنوں میں اضافہ ہو گا لیکن کیونکہ آئی ایم ایف سے پیسے مل جائیں گے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی پیسے آنے کی توقع ہے اس لیے امکان ہے کہ ڈالر کی قیمت 270 سے 280 کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔