مزید خبریں

رسول اکرمؐ کی انقلابی حکمت عملی

محمدؐ اور حضور کی جماعت کا طرز یہ نہیں تھا کہ پہلے سارا عربی معاشرہ اسلام قبول کرلے، یا اس کی اکثریت کی اصلاح ہوجائے تو پھر جاکر نظامِ اجتماعی کی تاسیس کی جائے۔ نہ نقطۂ نظر یہ تھا کہ بس دعوت دیتے رہو، خیالات و اعتقادات کی اصلاح کرتے رہو، بالآخر ایک صالح نظام خود بخود برپا ہوجائے گا، یا بطورِ انعام اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ دے دیں گے۔ وہاں تاریخ کی یہ حقیقت سامنے تھی کہ عوام کی بھاری اکثریت حالتِ جمود میں پڑی رہتی ہے، اور معاشرے کا ایک قلیل عنصر فعّال ہوتا ہے جس میں سے ایک حصہ اصلاح یا انقلاب کی دعوت کا علَم بردار بنتا ہے اور ایک حصہ مزاحمت کرتا ہے۔ اصل بازی اسی فعّال عناصر کی دونوں صفوں کے درمیان ہوتی ہے، اور اس کا جب فیصلہ ہوجاتا ہے تو پھر عوام خودبخود حرکت میں آتے ہیں۔ یہاں یہ شعور پوری طرح کارفرما تھا کہ عوام کے راستے میں جب تک ایک فاسد قیادت حائل رہتی ہے اور ان کی زندگیوں کو بگاڑنے کی مہم جاری رکھتی ہے، یا کم از کم ان کو جمود میں ڈالے رکھتی ہے، وہ نہ کسی دعوت کو بڑے پیمانے پر قبول کرسکتے ہیں، نہ اپنی عملی زندگیوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ خود دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فاسد قیادت کے بنائے ہوئے گندے ماحول میں اپنی زندگی کو حدِّ کمال تک سنوار سکیں، بلکہ اْلٹا اگر تبدیلی برپا ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہو تو بسااوقات، اْس مقام کو برقرار رکھنا بھی کٹھن ہوجاتا ہے، جس پر داعیانِ حق لمبی محنت سے پہنچتے ہیں۔ کیونکہ مخالف حالات پیچھے دھکیلنے کے لیے پورا زور صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ پس کسی اجتماعی تحریک کے لیے راہِ عمل یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کو چھانٹ کر جتنی زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرسکتی ہو، اسے کش مکش میں ڈال کر مقابل کی قیادت کا محاذ توڑدے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تمام انقلابات فعّال اقلیتوں کے ہاتھوں واقع ہوئے ہیں۔ معاشرے کے فعّال عنصر میں سے تعمیر واصلاح کی دعوت چونکہ نسبتاً زیادہ سلیم الفطرت افراد کو کھینچتی ہے، ان میں ایک مثبت جذبہ بیدار کرتی ہے، اور اْن کی تربیت کرکے ان کی اخلاقی قوت کو بڑھا دیتی ہے۔ اس لیے مقابل میں رہ جانے والا طبقہ اثر واقتدار، مال و جاہ اور کسی قدر عددی کثرت رکھنے کے باوجود مقابلے میں زک اْٹھاتا ہے۔ معرکۂ بدر اس کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ پس جب حضورؐ کے گرد عرب معاشرے کے فعّال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کی اتنی تعداد جمع ہوگئی کہ وہ اخلاقی قوت سے سرشار ہوکر جاہلی قیادت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرسکے، تو حضورؐ نے اپنے سیاسی نصب العین کی طرف کوئی ضروری قدم اْٹھانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔
فتح مکہ کا اصل مفہوم یہی ہے کہ اس موقع پر جاہلی قیادت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا اور اس رکاوٹ کے ہٹتے ہی عوام صدیوں پرانے [غلامی کے] جوئے سے آزاد ہوکر دعوتِ حق کو لبیک کہنے کے لیے ازخود آگے بڑھنے لگے۔
تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ فاسد قیادت کے زیرسایہ کوئی نظامِ فلاح پنپ سکا ہو اور بغیر سیاسی کش مکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کے کام سے اجتماعی انقلاب نمودار ہوگیا ہو۔ ورنہ گذشتہ 13 صدیوں میں خلافت ِ راشدہ کے بعد وعظ و ارشاد، تبلیغ و تذکیر، تعلیم و تزکیہ کے عنوان سے عظیم الشان مساعی، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے ادارات کے تحت عمل میں آتی رہی ہیں، اور آج بھی علما و صوفیہ، اصحابِ درس اور اربابِ تصانیف زبان و قلم سے جتنا کام کررہے ہیں، اس کی وسعت حیران کن ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ اس حدِ مطلوب تک افراد کا تزکیہ ہوسکا ہے اور نہ کبھی معاشرے کی اتنی اصلاح ہوسکی ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی نظام بدل جائے اور محمدؐ کا انقلاب دوبارہ رونما ہوسکے۔ صاف ظاہر ہے کہ طرزِفکر اور نقشۂ کار اور نظریۂ انقلاب میں کوئی بڑا جھول ہے۔ وہ جھول یہی ہے کہ قیادت کی تبدیلی کے لیے سیاسی کش مکش کیے بغیر افراد کو نظامِ تمدّن سے منقطع کر کے دعوت کا مخاطب بنایا جاتا رہا ہے۔
لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ دین کی اقامت اور اسلامی نظام کا برپا ہوجانا تو اصل مطلوب نہ تھا، اور یہ محض انعامِ خداوندی کے طور پر یکایک بیچ میں آنمودار ہوا، تو وہ حضورؐ کے کارنامے اور آپؐ کی جدوجہد کی سخت ناقدری کرتے ہیں اور حضورؐ کی قائدانہ بصیرت اور سیاسی عظمت پر غبار ڈال دیتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے کہ اس ہستی نے کتنی تگ و دو کرکے مدینہ کے مختلف عناصر کو چند ماہ کے اندر اندر دستوری معاہدے کے تحت جمع کیا۔ کس عرق ریزی سے اردگرد کے قبائل سے حلیفانہ تعلقات قائم کیے۔ کس مہارت سے مٹھی بھر مسلمانوں کے بل پر ایک مضبوط فوجی نظام اور طلایہ گردی کا سلسلہ قائم کیا۔ کس کاوش سے قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کرلی۔ کس عزیمت کے ساتھ قریش کے خنجربرّاں کا مقابلہ کیا۔ کس زیرکی سے یہود اور منافقین کی سازشوں کی کاٹ کی۔ کس مہارت سے حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ کس ہمت سے یہود کے مراکزِ فتنہ کی بیخ کنی کی۔ کس بیدار مغزی کے ساتھ بے شمار شرپسند قبائل کی علاقائی شورشوں کی سرکوبی کی۔ اس سارے کام میں قائدانہ بصیرت، سیاسی مہارت اور مضبوط حکمت عملی کے جو حیرت ناک شواہد پھیلے ہوئے ہیں، ان سے لوگ کس طرح صرفِ نظر کرلیتے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ سب کچھ خدا کا انعام تھا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس معنی میں کہ ہر بھلائی خدا کا عطیہ و انعام ہوتی ہے۔ تاہم انسانوں کو کوئی انعام ملتا جبھی ہے کہ وہ اس کے لیے ضروری محنت عقل و بصیرت کے ساتھ کردکھائیں۔ اقامت ِدین کو خدا کا انعام کہہ کر اگر کوئی شخص رسولِ خدا کی جدوجہد، جاں فشانی، حکمت و بصیرت اور سیاسی شعور کی نفی کرنا چاہتا ہے تو وہ بڑا ظلم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے حضورؐ کے کارنامے کا سیاسی پہلو اتنا اوجھل رہ گیا ہے کہ آج حضور کی دعوت اور نصب العین کے صحیح تصور کا اِدراک مشکل ہوگیا ہے۔ اس پہلو کو جب تک پوری سیرت میں سامنے نہ رکھا جائے، وہ فرق سمجھ میں آہی نہیں سکتا، جو محدود مذہبیت اور دین کے وسیع تصور میں ہے۔ حضورؐ پورا دین لائے تھے۔ حق کی بنیادوں پر ساری زندگی کا نظام قائم کرنے آئے تھے۔ خدا کے قوانین کو عملاً جاری کرنے آئے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ حضورؐ جامع اور وسیع معنوں میں تمدنی اصلاح اور انسانیت کی تعمیرنو کی تحریک چلانے آئے تھے، اور اس تحریک کو چلانے کے لیے بہترین قائدانہ بصیرت اور اعلیٰ درجے کے سیاسی شعور سے آپؐ کی ہستی مالامال تھی۔ جس طرح کسی اور پہلو میں حضورؐ کا کوئی ہم سر نہیں ہوسکتا، اسی طرح سیاسی قیادت کی شان میں بھی آپؐ کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔ جس طرح آپؐ زندگی کے ہر معاملے میں اسوہ و نمونہ ہیں، اسی طرح سیاسی جدوجہد کے لیے بھی آپؐ ہی کی ذات ہمیشہ کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔
حضورؐ کا کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے نیکی کی دعوت دی، نیکی کے غلبے کے لیے جدوجہد کی، اور ایک مکمل نظام قائم کر دیا۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں سما نہیں سکتا۔ یہ دین تھا، یہ تحریک تھی!