مزید خبریں

رسائل و مسائل

رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو مہر اور عدت کا حکم
سوال: ایک لڑکی کا نکاح ہوا، لیکن رخصتی سے قبل ہی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا وہ مہر کی مستحق ہوگی؟ اور کیا اس صورت میں اسے عدّت گزارنے کی ضرورت ہے۔
جواب: نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔ (النساء: 4)
نکاح منعقد ہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتا ہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
قرآن کریم میں عدّتِ وفات کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں‘‘۔ (البقرہ: 234)
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہر طرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کا نکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیا گیا ہے۔
٭…٭…٭
وصیت کی شرعی حیثیت اور اس کے حدود
سوال: ایک صاحب کا دینی کتابوں کا بڑے پیمانے پر پرنٹنگ اور پبلشنگ کا کاروبار ہے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ انھوں نے ایک لڑکی کو گود لے کر اس کی پرورش کی تھی۔ اب اس کی شادی کردی ہے۔ ان کی اہلیہ ابھی حیات ہیں۔ رشتے داروں میں صرف ان کے ایک حقیقی بھائی اور ایک باپ شریک بھائی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بعد یہ کاروبار چلتا رہے۔ اس لیے انھوں نے ایک وصیت نامہ تیار کیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی گود لی ہوئی لڑکی اور اس کا شوہر ان کی اہلیہ کی شرکت میں کاروبار چلانے کے مجاز ہوںگے اور اس کے انتقال کے بعد پورے کاروبار کے مالک بن جائیںگے۔
کیا اس طرح کا وصیت نامہ تیار کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟
جواب: شریعت میں وراثت اور وصیت دونوں کے احکام کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، اس لیے وصیت کی بنیاد پر وراثت کے احکام کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں اور غیر وارث کے لیے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ مسئولہ میں گود لی ہوئی لڑکی اور اس کے شوہر کے حق میں صرف ایک تہائی مال و جائداد (پراپرٹی) کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ سائل کا انتقال ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک چوتھائی ترکہ کی حق دار ہوںگی۔ (النساء: 12) بقیہ ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کو ملے گا۔
٭…٭…٭
غیرمسلموں سے تعلقات کے حدود
سوال: ہم ہندوؤں کے محلے میں رہتے ہیں۔ تعلقات اچھا رکھنے کی خاطر ان کے تہواروں میں کچھ حد تک شامل ہونا، حصہ لینا، چندہ دینا پڑتا ہے۔ تہواروں کے موقع پر وہ لوگ گھر پر پَرساد بھی بھیجتے ہیں، کیا بسم اللہ پڑھ کر اسے کھانا صحیح ہے؟
جواب: غیرمسلموں سے تعلقات کے ضمن میں یہ اصول ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کے مشرکانہ کاموں میں شرکت اور تعاون کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ ان کے غیرشرکیہ کاموں اور تہواروں میں شرکت کی جاسکتی ہے اور انھیں تعاون بھی دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک پَرساد کا معاملہ ہے، اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو کسی مسلمان کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر بھی وہ جائز نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں حرام ماکولات کی جو فہرست بیان کی گئی ہے ان میں یہ بھی ہے:
’’وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاگیا ہو‘‘۔ (البقرہ: 173)
غیرمسلم اس طرح کی کوئی چیز دیں تو ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو اسے لینے سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ انھیں بات سمجھادی جائے تو وہ اسے دینے پر اصرار نہیں کریں گے، آئندہ احتیاط کریں گے اور اس کا بْرابھی نہیں مانیں گے۔