مزید خبریں

ملک میں مالی اخراجات میں اضافہ اور احتساب کا عمل دھندلا رہا ہے

عالمی بینک نے اہم وفاقی اور صوبائی نمائندوں پر مشتمل ’نیشنل کونسل آف منسٹرز‘ بنانے کی تجویز دی ہے تاکہ خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وفاقی اور صوبائی اداروں، پالیسیوں اور احتسابی نظام کی بیک وقت اور مربوط مضبوطی کے خلا کو پُر کیا جاسکے۔ عالمی بینک نے یہ تجویز ادارہ جاتی کمزوریوں اور ’اختیارات کی نامکمل منتقلی‘ کو ترقی اور گورننس کے کلیدی چیلنجز کے طور پر اجاگر اور ٹیکنوکریٹک حکومت سے بہت کم امیدیں وابستہ کرتے ہوئے دی۔واشنگٹن میں مقیم ادارے نے پالیسی ایڈوائس میں بتایا کہ ٹیکنوکریٹک مداخلتوں سے پاکستان کے ادارہ جاتی ماحول کو مختصر مدت میں تبدیل کرنے کا امکان نہیں ہے لیکن بگڑتے معاشی حالات، آبادیاتی تبدیلی اور سوشل میڈیا سے مثبت تبدیلی کے لیے کچھ مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔پالیسی ایڈوائس میں بتایا گیا کہ پاکستان نے 18ویں ترمیم کے ذریعے شروع کی گئی اختیارات کی منتقلی پر مؤثر طریقے سے عملدرآمد نہیں کیا، اور وفاق منتقل کیے جانے والے بہت سے شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے، جس سے مالی اخراجات میں اضافہ اور احتساب کا عمل دھندلا رہا ہے۔عالمی بینک نے بتایا کہ لہٰذا موجودہ مالیاتی انتظامات محصولات کی وصولی کے لیے جوابدہی کو کمزور اور ٹیکس انتظامیہ کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں، جبکہ کارکردگی کا جائزہ لینا نایاب ہے اور مراعات اچھی آپریشنل کارکردگی کے بجائے قوانین کی پابندی کے مطابق دی جاتی ہیں، اسی طرح ترقیاں قابلیت کے بجائے سنیارٹی اور غیر رسمی نیٹ ورکس کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔عالمی بینک نے اس طرح کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ہم آہنگی کو بہتر بنانے کے لیے ’فوری اقدامات‘ کرے۔اس میں کہا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) یا وفاقی کابینہ کے فیصلے اب صوبوں کو پابند نہیں کرتے، لہٰذا مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اور قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کو قومی پالیسی کو مربوط اور ہم آہنگ بنانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔مزیدیہ بھی کہا گیا کہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے زیراہتمام کام کرنے والے وفاقی اور صوبائی وزرا پر مشتمل قومی کونسل کو تعلیم، صحت، خوراک کی حفاظت اور زراعت، پانی کی صفائی، اور نقل و حمل سمیت اہم قومی پالیسیوں کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہیے۔عالمی بینک نے کہا کہ نو منتخب حکومت کو فوری طور پر ڈی سینٹرلائزڈ نظام کے لیے تکنیکی نفاذ کے انتظامات کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے جس میں اخراجات میں کمی، ٹیکس اور ریونیو اسائنمنٹ کے ساتھ ساتھ فنکشنز اور ٹیکس کی منتقلی شامل ہے۔

عالمی بینک نے کہا کہ ہے کہ پاکستان بحران کے ایسے مقام پر کھڑا ہے، جہاں اسے فیصلہ کرنا چاہیے کہ اسے اشرافیہ کی گرفت اور فوجی، سیاسی اور کاروباری رہنماؤں کے مفادات کے تحت چلنے والے پالیسی فیصلوں کے تحت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی 40 فیصد آبادی کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے یا پھر تابناک مستقبل کے لیے راستہ تبدیل کرنا ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے یہ واضح انتباہ نئے انتخابات سے قبل دیا گیا ہے ا ور یہ واضح کیا کہ بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت دار صرف کامیابیوں کے عالمی تجربات اور کچھ مالی امداد کے ساتھ مشورہ دے سکتے ہیں لیکن مشکل انتخاب اور عمل درآمد کا فیصلہ ملک کے اندر ہی لیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بین ہسین نے نئی منتخب حکومت کے آنے سے قبل بحث و مباحثے کے لیے پالیسی نوٹس کا ایک سیٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اچھی علامت یہ ہے کہ بھارت، انڈونیشیا اور ویتنام جیسے اعلیٰ پائیدار اقتصادی ترقی کے حامل ممالک نے بھی بحران کے وقت درست فیصلے کیے اور اسی طرح کے چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب رہے، پاکستان میں یہ موقع پالیسی میں تبدیلیاں کرنے کا ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان انسانی وسائل اور معاشی بحران کے درمیان میں ہے، ناجی بینہسین کی جانب سے جاری ’ریفارمز فار اے برائٹر فیوچر: ٹائم ٹو ڈیسائڈ‘ کے جائزے میں لکھا گیا کہ پالیسی فیصلے بشمول فوجی، سیاسی اور کاروباری رہنما کے مفادات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو متعدد معاشی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں مہنگائی، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، موسمیاتی جھٹکے اور ترقی اور کلائمٹ ایڈپٹیشن کی فنانسنگ کے لیے ناکافی وسائل شامل ہیں۔ناجی بین ہسین نے کہا کہ یہ ایک ’خاموش‘ انسانی وسائل کے بحران کا بھی سامنا کر رہا ہے، جس میں غیر معمولی طور پر بچوں میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے نشوونما نہ ہونے کی زیادہ شرح، کم سیکھنے کے نتائج اور بچوں کی زیادہ اموات شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا معاشی ماڈل اب غربت میں کمی نہیں کر رہا ہے اور یہ بہت تشویشناک ہے کہ 2018 تک غربت میں کمی کی کامیابی ہوئی، اس کے بعد سے یہ رجحان الٹا ہو گیا ہے۔عالمی بینک کے ایک اور حکام نے بتایا کہ پاکستان کی غربت کی شرح 3.20 ڈالر کی درمیانی آمدنی لائن کے لیے 2018 تک کم ہو کر 34.3 فیصد تک ا? گئی تھی، جو دو دہائیوں قبل 37.5 فیصد پر تھی، تاہم وہ دوبارہ بڑھ کر 39.4 فیصد تک جاپہنچی ہے، اسی طرح ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، جس کی پیمائش 3.65 ڈالر یومیہ آمدنی سے کی جاتی ہے۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی اوسط حقیقی فی کس آمدنی 2000 سے 2020 کے درمیان محض 1.7 فیصد بڑھی، اس دورن جنوبی ایشیا کی فی کس اوسط آمدنی میں 4 فیصد اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان فی کس آمدنی میں دیگر ہمسایہ ممالک سے پیچھے رہ گیا، مزید کہا کہ پاکستان کا شمار فی کس آمدنی کے حساب سے 1980 کی دہائی میں جنوبی ایشیا کے سرفہرست ملکوں میں ہوتا تھا تاہم اب اس کا شمار خطے میں فہرست کے نچلے ممالک میں ہوتا ہے۔عالمی بینک کے مطابق اصلاحات کے ذریعے اخراجات میں فوری طور پر 1.3 فیصد اور درمیانی مدت میں تقریباً 2.1 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے، اس طرح حاصل ہونے والے فنڈز صحت، تعلیم اور صفائی و ستھرائی کے لیے استعمال کیے جانے چاہئیں۔

حکومت کی جانب سے اخراجات میں کمی کے بجائے بیانات پر اکتفاکیا جا رہا ہے جبکہ ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری کا کوئی ٹھوس منصوبہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ عوام زندہ رہنے کے لئے اپنے اخراجات میں ہرممکن حد تک کمی کرچکی ہے اور اب مزید کمی کی گنجائش نہیں ہے۔ عوام ایندھن اور بجلی کے استعمال میں ضرورت سے زیادہ کفایت شعاری کررہی ہے جبکہ کھانے کے لئے غیر معیاری اشیاء پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے مگر معاملات پھربھی قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ عوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے سرکاری اداروں کے نقصانات ختم کرنے کے فوری اقدامات کئے جائیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چھ سال سے جاری سیاسی عدم استحکام نے عوام اورمعیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط اور گیس، بجلی وایندھن کی قیمت میں مسلسل اضافوں نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ ملک کو اس حالت تک عوام نے نہیں پہنچایا بلکہ اس کے ذمّہ دار ناکام حکومتی ادارے، ٹیکس، بجلی و گیس چور ہیں۔ عوام کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے، کروڑوں افراد غریب ہو رہے ہیں اور مایوسی کی وجہ سے انکی جانب سے کسی بھی وقت غیرمتوقع ردعمل آسکتا ہے۔ بارڈر ایریاز سے پیٹرول اور ڈیزل کی ا سمگلنگ روکنا خوش ائند ہے جس سے روپے کی قدر میں استحکام آرہا ہے اور اس سے حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔ ملک میں کئی اشیاء کی کمی ہوگئی ہے جس میں قابل ذکر فارما انڈسٹری کا خام مال ہے جسکی وجہ سے جان بچانے والی ادویات کی کمی واقع ہورہی ہے اس بحران کو ٹالنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ فارما بلیک مارکیٹ قائم ہوجائیگی۔ ملک میں جاری سیاسی اورمعاشی بحران کی وجہ سے امیر اور بہت زیادہ امیر طبقے کے علاوہ ہر شخص بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ بعض لوگوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا ہے اور پاکستان کے حالات ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا حل ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری، ٹیکس بیس میں اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری، امپورٹ سبسٹیٹیوشن اور ایکسپورٹس میں اضافے میں مضمر ہے ان اقدامات سے معاشی تباہی کا خاتمہ اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ممکن ہے۔ مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں ٹالنے سے حالات کو سنبھالنا اب ممکن نہیں ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان میں ہر قسم کی کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی کے نقصانات کو گورننس اوراصلاحات کے بجائے قرضوں کے زریعے حل کرنے کا شارٹ کٹ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور مستقبل میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی اقتصادی معاملات میں دلچسپی حوصلہ افزاء ہے۔ کاروباری برادری کے رہنماؤں سے انکی ملاقات سے ملک بھر کے تاجروں اور صنعتکاروں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کا عزم قابل تعریف ہے تاہم سب سے اہم بات آئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنے اورایک نیا پروگرام شروع کرنے کی یقین دہانی ہے آرمی چیف کو بخوبی اندازہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے اور یہ کہ اس عالمی ادارے کی نگرانی سے معیشت کو استحکام تو مل سکتا ہے مگر شرح نمو میں اضافہ ناممکن ہے جس کے لئے اس سے جلداز جلد نکلنا ہوگا مگر اس فیصلے کی بنیاد سستی شہرت کا حصول نہیں بلکہ ملک کے بہتر اقتصادی حالات ہونگے۔ آرمی چیف ڈالر کی قدر میں شفافیت لانے، کرنسی کا کاروبار کرنے والوں پرنظررکھنے اورانھیں ٹیکس نیٹ میں لانے، ایران و افغانستان سے سمگلنگ کے خاتمے اور ٹیکس ریونیو بڑھانے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے زریعے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور دیگر ممالک سے ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے بھی پر امید ہیں اور اس پر عمل درآمد سے معیشت کو مستحکم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ اگر یہ سرمایہ کاری ہوگئی تو اس سے ملکی معیشت کی صورتحال کئی درجے بہترہوجائے گی، روپیہ مستحکم ہوجائے گا اور زرمبادلہ کی کمی کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس لئے اس سمت میں بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور کاروباری برادری مکمل طور پر آرمی چیف کی ان کوششوں کا بھرپور ساتھ دے گی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کا خیال درست ہے کہ ناکام سرکاری اداروں پر سالانہ 1.3 کھرب روپے کا خرچہ نقصان کا سودا ہے اوراس سرمائے کو بچانے کے لئے انھیں فروخت کردینا ہی بہتر ہے جو خوش آئند ہے اور بزنس کمیونٹی کافی عرصے سے اس طرف توجہ مبذول کروا رہی ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ صرف سرمایہ کاری سے صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اسٹرکچرل اصلاحات نہ کی جائیں جس کے لئے اہم فیصلوں میں نااہل بیوروکریسی کا کردارختم کرنا ہوگا۔فیصلے اسی وقت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں جب سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جائے، انتشار پسند سیاست دانوں کو ڈسپلن کا پابند بنایا جائے اور دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا جائے۔ 2005 سے 2020 سے ملک کوسرمایہ کاری اور سرمایہ کاری کی مد میں باسٹھ ارب ڈالر ملے جن کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اب ہم دوبارہ کشکول اٹھا کر آئی ایم ایف کے درپر کھڑے ہیں۔ کاروباری برادری سے اس سے قبل بھی سپہ سالاروں نے کئی ملاقاتیں کی ہیں مگر اسکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لئے اس ملاقات کو بارآور بنانا تمام فریقین کی اولین ذمہ داری ہے۔