مزید خبریں

رحمت للعالمینؐ

قرآنِ کریم نے آپؐ کی صفاتِ حمیدہ کے حوالے سے جہاں اخلاق [خلق] کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہیں رحمت للعالمینؐ کے لقب سے بھی نواز ا ہے۔ اس رحمت کے یوں تو بے شمار پہلو ہیں لیکن موجودہ حالات کی روشنی میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم

چار پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی جائے:

اوّلاً: اس رحمت کا تعلق اس نور اور ہدایت کے ساتھ ہے جو خود اپنے لیے فرقان، ذکریٰ اور قرآن جیسے نام استعمال کرتا ہے۔ آپؐ اس لیے رحمت للعالمینؐ ہیں کہ آپؐ تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے کتابِ ہدایت اور سامانِ رحمت لانے والے ہیں۔ یہ وہ کلام ہے جو انسانوں کے لیے سرتاسر رحمت ہی رحمت ہے۔ اس کی ہرہر آیت انھیں گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکال کر نور کی پاکیزہ کرنوں سے منور کردیتی ہے۔ اس کلامِ رحمت میں وہ ہستی جو الرحمن اور الرحیم ہے، اپنے بندوں کی نادانیوں اور بھول ہی نہیں، جان بوجھ کر غلطیوں کا ارتکاب کرنے پر بھی رحمت و مغفرت کی اْمید جگاتا اور اپنے کمالِ کرم و رحمت سے ان کے بڑے بڑے گناہوں کو اظہارِندامت پر معاف فرمانے کا وعدہ فرماتا ہے، اور کس کا وعدہ اْس سے زیادہ سچا ہوسکتا ہے جو مکمل طور پر صدق اور حق ہے، جو اپنے بندوں پر ایک ماں سے بھی زیادہ شفقت و رحمت فرمانے والا ہے۔ ایسا کلام رحمت لانے والا انسانوں کے لیے رحمت نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ اسے اور کس نام سے پکارا جاسکتا ہے؟

دوسرا اہم پہلو جو مطالبہ کرتا ہے کہ مقامِ محمود پر فائز علم اور رہنمائی کے اس سرچشمے اور تمام انسانوں کو علم سے مالا مال کردینے والی اس ہستی کو رحمت للعالمینؐ کہہ کر پکارا جائے۔ آپؐ ہی کا عمل وہ اسوہ ہے جس میں ہرہرقدم پر رحمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اْم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رحمت عالم کے سامنے جب دو کاموں میں انتخاب کا معاملہ ہوتا تو اپنی اْمت کو یْسر فراہم کرنے اور عْسر سے نکالنے کے لیے آپؐ جو عمل زیادہ آسان ہوتا، اسے پسند فرماتے۔ چند اصحابِ رسولؐ جب اْمہات المومنینؓ سے دریافت کرتے ہیں کہ آپؐ کے شب و روز کس طرح گزرتے ہیں اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ آپؐ عبادات و معاملات کے درمیان کیا حسین توازن قائم کرتے ہیں، تو واپسی پر راستے میں وہ سوچتے ہیں کہ ایسا معاملہ آپؐ کے ساتھ خاص ہو، عام انسانوں کے لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خصوصی رخصت دے دی ہو، اور اس بنا پر آپؐ اْس شدت سے عبادت نہ کرتے ہوں جس کی اْمید میں وہ اْمہات المومنینؐ سے معلومات کرنے گئے تھے۔ ان میں سے ایک ارادہ کرتا ہے کہ وہ تمام رات قیام کرے گا۔ دوسرا طے کرتا ہے کہ وہ ہردن روزے سے ہوگا، اور تیسرا قصد کرتا ہے کہ وہ بیوی کے پاس نہیں جائے گا۔ رحمت للعالمینؐ کو جب اس کی اطلاع ملتی ہے تو آپؐ ان کو طلب فرماتے ہیں اور جن دو کلمات سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسولؐ اور ان سے زیادہ اللہ کی خشیت اور تقویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود رات کے کچھ حصے میں عبادت، اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں، بعض دنوں میں روزہ رکھتے اور بعض میں نہیں رکھتے، اور پھر یہ بات فرمائی کہ نکاح آپؐ کی سنت ہے جس سے معلوم ہوا کہ جو اللہ کے رسولؐ کی سنت سے رغبت نہیں رکھتا اس کا آپؐ سے کوئی تعلق نہیں [فلیس منّی]۔
تقویٰ اور خشیت کی تعریف اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی جو خاتم النبیینؐ اپنی اْمت پر رحمت بن کر بیان فرماتے ہیں کہ رات کے کچھ حصے میں قیام، صرف بعض دنوں میں روزہ، اور خاندان کی زندگی سنتِ رسولؐ سمجھتے ہوئے گزارنا۔ یہاں بھی رحمت اور یْسر کا پہلو غالب ہے، جب کہ دنیا کے دیگر مذاہب میں تقویٰ اور بندگی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان گھربار کو چھوڑ کر جنگل بیابان میں، کسی پہاڑی کے دامن میں، کسی غار میں جاکر بیٹھ جائے اور اس طریقے سے چند دنوں میں مرجع خلائق بن جائے! کیا یہ عمل ایسے فرد کو رحمت للعالمینؐ سے جوڑنے والا ہوگا یا توڑنے والا؟ گویا عبادات ہوں یا معاشرت توازن و اعتدال کی عملی مثال، وہ رحمت ہے جو آپؐ کی حیاتِ مبارکہ میں ہمارے لیے مثال بن کر نظر آتی ہے۔

تیسرا اہم پہلو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نہ صرف انسانوں بلکہ تمام موجودات کے لیے رحمت و شفقت کا مظہر و مرکز ہیں۔ انسانوں کے ساتھ تو آپؐ کا تعلقِ رحمت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جب آپؐ ایک صحابیؓ سے وہ واقعہ سماعت فرماتے ہیں جس میں اْس صحابیؓ نے قبلِ اسلام اپنی بیٹی کو ایک غیرآباد کنویں میں ڈال کر مارنا چاہا اور وہ کنویں میں گرائے جانے کے باوجود اپنے شقی القلب باپ کو پیار سے پکارتی رہی، تو رحمت للعالمینؐ آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ بات انسانوں تک محدود نہیں، جب ایک باغ میں تشریف لے جاتے ہیں اور ایک اْونٹ کو تکلیف سے ہنکارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو رحمت للعالمینؐ اس کے لیے بھی رحیم و کریم ہونے کے سبب اس کے مالک کو نصیحت کرتے ہیں کہ اسے مناسب غذا دی جائے اور اس پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ پرندوں پر آپؐ کی شفقت و رحمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یوم الحساب آپؐ اْس چڑیا کے بھی وکیل ہوں گے جسے بغیر ضرورت ناحق نشانہ بنایا گیا۔ یہ آپؐ کی محبت و شفقت تھی جس نے خادمِ حدیث و سنت کو ابوہریرہؓ (بلّی کے باپ) کی کنیت دلوائی۔

آپؐ کے رحمت للعالمینؐ ہونے کا ایک بہت نمایاں پہلو آپؐ کا دونوں عالموں، یعنی اس دنیا میں اور آخرت میں واقع ہونے والے دوسرے عالم میں اپنی اْمت کے لیے سراپا رحمت ہونا ہے۔ قرآن کریم شہادت دیتا ہے کہ آپؐ مشرکینِ مکّہ کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے دعوتِ دین میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا کہ آپؐ ان کے غم میں خود کو نہ گھلائیں،آپؐ ان پر وکیل نہیں ہیں، آپؐ کاکام صرف ابلاغِ دعوت ہے۔ آپؐ کی یہی محبت و لگن تھی کہ جب تک آپؐ اس دنیا میں رہے، ہر ہر عمل سے اْمت کے لیے آسانی کی شکل نکالی اور ایسے ہی عالمِ آخرت میں اللہ کے ان بندوں کی اللہ تعالیٰ کے اذن سے شفاعت فرمائیں گے جنھوں نے حق کی خاطر اپنے نفس اور مال کو اللہ کی راہ میں لگایا۔ گویا آپؐ دونوں عالموں کے لیے رحمت ہی رحمت ہیں۔

قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ جو ہستی ہر معاملے میں انسانوں کے لیے رحمت ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ قرآن کی طرح وہ بھی یومِ حساب فریاد کرے کہ اسے اْس کے ماننے والوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا، پسِ پشت ڈال دیا تھا اور محض سال میں ایک دن اس کی یاد میں جشن منا کر اپنے خیال میں اس کی محبت و شفقت کا قرض اْتار دیا تھا؟

اللہ کے رسولؐ سے تعلق اور محبت کا اہم ترین تقاضا نظامِ ظلم و کفر کے خلاف جہاد، اور معروف اور بھلائی کے قیام کے لیے اپنے گھر میں، معاشرے میں، اپنی تجارت میں، اپنی سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں بندگی و اطاعت کو صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے خالص کردینا ہے۔ قرآن نے اس سلسلے میں جو قولِ فیصل ہمیں سنایا ہے وہ ہر لمحے نگاہوں کے سامنے رہنا چاہیے:

’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘‘۔ (اٰل عمرٰن: 31)

’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔ (النساء: 80 )

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو‘‘۔ (محمد: 33)

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ (النساء: 61)