مزید خبریں

سیرت رسولؐ کے دو اہم ترین پہلو

یوں تو پیغمبر اسلامؐ کی سیرت کا کوئی گوشہ نہیں جو کمال انسانیت کا آئینہ دار نہ ہو، لیکن اس کے دو اہم پہلو ایسے ہیں جو سب سے زیادہ بنیادی اور اہم ہیں:
ایک تو یہ کہ آپؐ کے پاس جو حق تھا اسے آپؐ نے خلق تک، وقت کے وقت، جوں کا توں پہنچادیا۔ کبھی اس بات کو روا نہ رکھا کہ اس کا کوئی جزو لوگوں پر واضح ہونے سے رہ جائے۔ آپؐ کو حکم تھا اور نہایت زوردار لفظوں میں تھا کہ:
’’اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تم پر نازل کیا گیا ہے، اسے (جوں کا توں) لوگوں تک پہنچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام پہنچانے کا حق ادا نہ ہوگا‘‘۔ (المائدہ: 67)

گمان نہیں کیا جاسکتا کہ آپؐ نے اتنے زبردست فرمان کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا رکھی ہوگی۔ جب کہ آپ کو یہ بھی صاف صاف سنایا جاچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایتوں کا چھپانے والا لعنتی ہوتا ہے۔
اس لیے عقلاً ممکن نہیں کہ آپؐ نے اللہ کے دین کو پورا پورا اور جوں کا توں لوگوں تک نہ پہنچا دیا ہو۔ یہ صرف قیاس اور عقیدت کی بات نہیں ہے، بلکہ واقعات کی قطعی اور کھلی ہوئی شہادت بھی یہی ہے۔ تئیس (23) برس کی پیغمبرانہ زندگی میں ایک ثبوت بھی اس بات کا نہیں مل سکتا کہ آپؐ نے اس فرمان الٰہی کی تعمیل میں کوئی کوتاہی دکھائی ہو۔ حالانکہ جو کچھ آپؐ کو دنیا کے سامنے اس بے لاگ طریقے پر رکھنا ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ ماحول کے لیے یکسر نامانوس اور سننے والوں کے لیے سرتاسر ناقابل برداشت ہوتا تھا۔ لیکن ماحول کی مصلحتوں اور سننے والوں کے جذباتی ردعمل کا آپؐ نے کبھی ذہنی دباؤ قبول نہیںکیا اور نہ کبھی دعوت حق کا مفاد آپؐ نے اس میں سمجھا کہ اس کے ایسے اجزا کو جن سے لوگوں کے بھڑک اٹھنے کا زیادہ اندیشہ ہو، ’قابل گوارا‘ بنا کر اور ان کے ’رنگ توحش‘ کو کچھ ہلکا کرکے پیش کریں۔ ایک طرف تو عرب کی سرزمین تھی جو سینکڑوں خداؤں کی نیازمندی اور پرستش میں غرق تھی، دوسری طرف قرآن کا تصور توحید تھا جس میں کسی بھی زندہ یا مردہ ’خدا‘ کی خدائی کے لیے کوئی گنجایش سرے سے موجود ہی نہ تھی اور جو ضروری قرار دیتا تھا کہ ایک ایک غیراللہ کی خدائی کا انکار کیا جائے۔ شرک کے ایسے زبردست مرکز میں توحید کے ایسے بے آمیز تصور کی منادی کیا کسی حال میں بھی قابل برداشت سمجھی جاسکتی تھی؟ آج کریملین کے اندر کھڑے ہوکر مار کس از م کے خلاف بولنا پھر بھی بہت آسان ہے، لیکن مکہ میں اور کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر لا الٰہ الا اللہ کی منادی کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ آپؐ نے یہ منادی ٹھیک انھی لفظوں میں کی، ہر مقام اور ہر موقع پر کی اور اس طرح کی کہ نہ تو کبھی آپ کے لب ولہجے میں کوئی کمزوری آئی اور نہ ان لفظوں کے معنی ومفہوم کو خوش نما بنانے کا آپ کے اندر کبھی کوئی رجحان پیدا ہوا۔ حالاں کہ اس طرح کی ’روادارانہ پالیسی‘ کے اختیار کرلینے کا خود مخالف کیمپ سے بھی کھلا اشارہ کیا گیا تھا اور اس وقت کیا گیا تھا جب طاقت واقتدار کے اعتبار سے وہ آپ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا۔ لیکن ان باتوں کا بھی اور وہ بھی ایسے سخت حالات میں، آپ کے برملا اعلان حق پر کوئی اثر نہیں پڑا، اگر پڑا تو صرف یہ کہ اس میں اور زیادہ شدت آتی گئی اور مخالفین کا ہر تازہ اظہار ناپسندیدگی دعوت توحید کی ایک تازہ تلقین وتوضیح کا سبب بنتا چلا گیا۔

جب توحید جیسے انقلابی اور ماحول کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت تصور کے بارے میں آپؐ کی صاف بیانی کا یہ حال تھا تو اسلام کے دوسرے عقائد اور تعلیمات کے بارے میں کسی اخفا یا التوا کا سوال ہی کہاں باقی رہ جاتا ہے؟
سیرت پاک کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ داعی اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ’اَوَّلْ المْسلِمِین‘ بھی تھے۔ آپ نے جس عقیدے، جس اصول اور جس ہدایت کی بھی دوسروں کو تلقین کی اس کے تقاضوں پر سب سے پہلے خود عمل کیا۔ آپ جس حق کے مبلغ تھے اس کی تبلیغ آپ نے بیک وقت اپنی زبان اور اپنے عمل، دونوں سے کی۔ اپنے ساتھیوں کو اگر یہ تاکید فرمائی کہ ذکرِ الٰہی اور حمد وتسبیح میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہو تو دنیا نے آپ کو بھی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ یاد مولیٰ میں مشغول دیکھا۔ اگر دوسرے اہل ایمان کو آپ کی یہ نصیحت تھی کہ دشمنان حق کی پیہم ایذا رسانیوں کا صبر سے مقابلہ کرتے رہو تو ان کے سامنے خود بھی سراپا صبر وثبات بنے رہے۔ جب زبان مبارک نے یہ اعلان کیا کہ ان ظالم دشمنوں کا اب ہاتھ سے مقابلہ کرو تو میدان جنگ کی طرف سب سے پہلے اٹھنے والے قدم آپ ہی کے تھے اور اگر کبھی غیرمعمولی حالات پیدا ہوجانے کے باعث ساتھی میدان چھوڑ بیٹھے تو اس وقت بھی حق کا یہ ستون اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ جنگی ضرورت سے اگر خندقیں کھودنے کا فیصلہ ہوا تو دوسروں کی طرح آپ کے ہاتھوں سے بھی پھاوڑے چلتے دیکھے گئے۔ تنگ حالی کے عالم میں اگر اوروں کے پیٹ پر ایک ایک پتھر بندھے تھے تو دامن مبارک کے نیچے دو دو پتھر بندھے پائے گئے۔ غرض دینی احکام وہدایت کا کوئی جزو نہیں اور بندگی کا کوئی پہلو نہیں جس میں آپ کا اپنا عمل دوسروں کی رہنمائی کے لیے آگے آگے موجود نہ رہا ہو۔ یہ صرف آپ کا جذبہ عمل ہی نہ تھا بلکہ آپ کو حکم بھی اسی بات کا تھا:

’’اے نبی! کہہ دو مجھے حکم ہے کہ اللہ کی بندگی کروں طاعت کو اسی کے لیے [خالص] کرتے ہوئے، اور مجھے حکم ہے کہ میں سب سے پہلا طاعت گزار بنوں‘‘۔ (الزمر: 11)

اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے ’اَوَّلْ المْسلِمِینَ‘ ہونے کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ بعض اوقات جب مصالح نے تقاضا کیا تو آپ کی نجی زندگی کی وہ آزادی بھی باقی نہ رہنے دی گئی جو شریعت کی طرف سے ہر شخص کو ملی ہوئی ہے۔ مثلاً نکاح کا معاملہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنے میں وہ بالکل آزاد ہے کہ شرعی حدود اور معروف کے اندر وہ جس عورت سے چاہے نکاح کرے اور جس سے چاہے نہ کرے۔ مگر ایک خالص دینی مصلحت کی بنا پر آپؐ کو ایک خاتون (حضرت زینبؓ) سے نکاح کرلینے کا مکلف بنا دیا گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح عرب جاہلیت میں جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دوسری تمام جاہلی اور غلط رسوم کی طرح اس رسم کو بھی اسلام نے موقوف قرار دے دیا۔ مگر پرانی رسموں کا اثر مسلسل تعامل کی وجہ سے سماج کے ذہن میں جس گہرائی تک اترا ہوا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے اس رسم کے خلاف عمل کی ابتدا کرنا سخت مجاہدے کی بات تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ حضرت زید بن حارثہؓ نے جو آپؐ کے منہ بولے بیٹے تھے، اپنی بیوی زینبؓ کو طلاق دے دی۔ اگرچہ بعض اہم مصالح کا تقاضا آپ یہی سمجھتے تھے کہ حضرت زینبؓ کو اپنے عقد نکاح میں لے لیں۔ مگر وہی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ ہونے کی بنا پر اس بات کا قوی اندیشہ کہ معاشرے میں بھی اس نکاح کا اچھا خاصا خراب ردعمل ہوگا، جھجھک میں ڈالے ہوئے تھا۔ ظاہر ہے کہ جہاں تک معاملے کی عام نوعیت کا تعلق تھا یہ آپؐ کا بالکل نجی معاملہ تھا اور آپ کے لیے اس لحاظ سے دونوں راہیں کھلی تھیں، نکاح کرلینے کی بھی اور نہ کرنے کی بھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوا کہ آپ کو یہ نکاح ضرور کرنا چاہیے۔ بلکہ قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے اس رشتۂ نکاح کو جوڑ کر اس کا اعلان فرمادیا ’’زَوَّجنَاکَھَا‘‘۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اس ذاتی معاملے میں آپ کی آزادیٔ عمل کیوں برقرار نہ رہنے دی؟ اس کا جواب خود اسی کے لفظوں میں سنیے:

’’…ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دے دیا تاکہ اہل ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے، جب کہ وہ ان سے اپنی غرض پوری کرچکیں، نکاح کرلینے میں کوئی تنگی نہ رہ جائے‘‘۔ (الاحزاب: 37)
چونکہ امت پر سے ایک ناروا بندش کو ختم کرنا تھا اور اس سلسلے میں دوسروں کے لیے زبردست نفسیاتی رکاوٹیں تھیں، اس لیے یہ ’اول المسلمین‘ ہی کا کام تھا کہ آگے بڑھے اور بڑھ کر راہ عمل کھول دے۔
اس ایک مثال سے پوری صورت واقعی اچھی طرح سمجھ میں آجاسکتی ہے اور اندازہ کرلیا جاسکتا ہے کہ آپؐ کے’اول المسلمین‘ ہونے کے کیا معنی تھے؟

اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجیے کہ رسول خداؐ یہ دونوں امتیازی خصوصیتیں زندگی بھر اتنی مضبوطی سے کیوں اپنائے رہے؟ کیا بات تھی کہ سیرت پاک کے سراپے میں یہ دونوں اوصاف اتنی نمایاں اہمیت کے ساتھ موجود نظر آرہے ہیں؟ بلاشبہ اس کا آسان اور سیدھا جواب تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کو حکم ہی اس طرح کا تھا۔ لیکن اس جواب پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کیوں؟ آخر اس حقیقت کو تو حقیقت ہی مانا جائے گا کہ اس کا کوئی حکم بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ ہر حکم کسی نہ کسی گہری حکمت پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ پھر سوچیے کہ آپ کو جو کام سپرد کرکے بھیجا گیا تھا اور جو دین حق کی تبلیغ واقامت کے سوا اور کچھ نہ تھا، اس کے پیش نظر ان دونوں باتوں کا حکم کن مصلحتوں اور حکمتوں کا حامل ہوسکتا ہے؟ جہاں تک معروف انداز فکر کا تعلق ہے وہ تو کسی ایسی غیرمعمولی انقلابی دعوت وتحریک کے سلسلے میں، جو انسانی ڈھانچے کو پوری طرح ادھیڑ دینا اور ادھیڑ کر بالکل نئی بنیادوں پر پھر سے تعمیر کرنا چاہتی ہو، اس طرح کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، بلکہ پہلی چیز کو تو دانش مندی کے بھی خلاف بھی سمجھتا ہے۔ اس بارے میں اس کا فیصلہ یہ ہے کہ جس تحریک کا منشا سماج میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی لانا ہو ابتدا ہی میں اس کا واضح اور صاف صاف تعارف عوامی جذبات کو لازماً بھڑکا دیا کرتا ہے۔ اس لیے حسن تدبر کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے اصل اور آخری مدعا کا پہلے ہی قدم پر کیا، مدتوں پتا نہ چلنے دیا جائے۔ بلکہ لوگوں کی نگاہیں دیکھ کر باتیں کی جائیں اور ان کی قوت برداشت کی حد تک اسے کم وحشت انگیز بلکہ خوش نما بنا کرپیش کیا جائے۔ پھر جب ایک خاص حد تک لوگ ہموار ہوجائیں اور کچھ طاقت بھی فراہم کرلی جائے تب کہیں جاکر اپنے اصل مدعا کا برملا اظہار کیا جائے۔ یہ فیصلہ کچھ آج ہی کے ’معروف انداز فکر‘ کا نہیں ہے بلکہ خود اس زمانے میں اور اس ملک میں بھی لوگوں کے سوچنے کا انداز کچھ اسی طرح کا تھا جس میں آپؐ مبعوث فرمائے گئے تھے۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے مخلص ساتھیوں کو اسی بنا پر ایک مدت تک، العیاذ باللہ، فریب خوردہ اور بے وقوف قرار دیا جاتا رہا۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کا حکم اور رسول خداؐ کا طریق کار اس معروف انداز فکر وطریق کار کے بالکل مخالف رہا تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دعوت حق کا مفاد اسی بات کا متقاضی تھا۔ کیوںکہ یہ بات حکیم وخبیر خدا کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنے رسول کو ایسی پالیسی اختیار کرنے کی ہدایت کرے جو اس کے مقصد بعثت کے حصول میں مفید ہونے کے بجائے الٹا اسے نقصان پہنچانے والی ہو۔