مزید خبریں

مولانا مودودی ؒ 20 ویں صدی کے امام ہیں ان کی تصانیف نے پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) سید مولاناابوالاعلیٰ مودودی مشہو ر عالم دین مشہور مفسر اور جماعت اسلامی کے بانی ہیں ، سید مودودی بلاشبہ بیسویں صدی کے امام ہیں۔ بیسویں صدی میں احیا اسلام کی کاوشوں میں برصغیر کے چند نامور اکابرین میں سید کا نام اس وجہ سے منفرد ہے کہ انہوں نے نہ صرف علم و فکر کے محاذ پر ایک طرف سوشل ازم کو للکارا تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کو بھی آڑے ہاتھوں لیا،سید کی فکر سے اختلاف رکھنے والے ان کے علمی دلائل کے قائل اور گھائل بھی ہیں، ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ارتقاپر گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجد د اسلام ثابت ہوئے سید مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی ، پاکستانی حکومت نے قادیانی گروہ کو کافر قرار دینے پر پھانسی کی سزا سنائی، خوش قسمتی سے عالمی دبائو کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا ۔سید مودودی کو ان کی خدمات پر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا‘ ان کی لکھی گئی قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن جدید دور کی نمائندگی کرنے والی تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ ،فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولاناعطا اللہ عبدالرؤف اورمانچسٹر، برطانیہ میں رہائش پذیر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر محمد اسامہ شفیق نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ بیسویں صدی کے مسلمان مفکرین میں سید مودودی کا کیا مقام ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ اسلام دین ِ فطرت ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں لاتعداد صاحبانِ عمل، اکابر علما ہیں جنہوں نے ہر دور میں حق کے پیغام کو پھیلانے میں کردار ادا کیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو علمی اور فکری اعتبار سے منفرد اور بڑا مقام حاصل ہے‘ مولانا مودودی دنیا کے کونے کونے میں اِس لیے جانے پہچانے جاتے ہیں کہ انہوں نے اشاعتِ دین اور اقامتِ دین کے لیے خالصتاً قرآن و سنت سے رہنمائی لی اور تعصبات و شدتِ جذبات، استحصالی اسلوب کے بجائے ذہن سازی، کردار سازی اور دلیل کی طاقت سے فرد کو حق کی دعوت کے لیے قائل کیا‘ مشرق و مغرب میں مولانا مودودی کے افکار و خیالات کی گونج اِس لیے سنائی دے رہی ہے کہ انہوں نے اشتراکیت کے فریب، مغربی سرمایہ دارانہ نظام و تہذیب کے استحصال کا بروقت، برملا محاکمہ کیا، دنیا نے عملاً دیکھ لیا کہ انسانوں پر انسانوں کی حاکمیت کے لیے انسانی نظام مالکِ کائنات کے نظام کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ مولانا مودودی کو دورِ حاضر کے مفکرین میں اِس لیے منفرد مقام حاصل ہے کہ انہوں نے طواغیتِ دنیا کے خلاف نہ صرف فکر و نظر کے میدان میں شدید جنگ لڑی بلکہ اقامتِ دین کے لیے عملی میدان میں اپنے علم و کردار کی طاقت سے ایک انقلاب برپا کردیا۔ آج مولانا مودودی کے شرق و غرب میں گہرے اثرات کا یہ عالم ہے کہ جس جگہ بھی اسلام کے احیا و تجدید کا نام لیا جاتا ہے، سید مودودی کی تصویر آنکھوں کے سامنے چھلک جاتی ہے۔ مولانا مودودی کو عصرِ حاضر کے مفکرین میں بڑا مقام اِس لیے بھی حاصل ہے کہ حق بات کو بِلاجھجھک اور پوری جرأتِ ایمانی سے پیش کیا اور اقامتِ دین کے لیے دعوتی، سیاسی، جمہوری جدوجہد کے ساتھ انتخابی پارلیمانی طریقہ کار متعین کیا۔ زیرِ زمین یا طاقت سے نہیں، برسرِ زمین اور دلیل و کردار کی برہان کا لائحہ عمل دیا۔ مولانا عطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ بیسویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے مفکرین کو پیدا کیا ہے جس طرح اللہ کا دستور رہا ہے کہ ہر زمانے میں باطل کی حقیقت عوام پر کھو لنے کے لیے اور اسلام کی حقانیت ان پر ظاہر کرنے کے لیے علما، مفکرین اور مدبرین پیدا فرمائے ہیں ہر ایک سے مخصوص جہت میںکام لیا ہے ان تمام کاموں کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس صدی میں علم دین اور علم الکلام برائے دین کو فروغ نصیب فرمایا ہے ، سید مولاناابوالاعلیٰ مودودی مشہو ر عالم دین مشہور مفسر اور جماعت اسلامی کے بانی ہیں، مولا نا مودودی جس دور میں پیدا ہوئے اس دور میں مسلمانوں کی حالت انتہائی مایوس کن تھی، دین ان سے چلا گیا تھا لیکن اب اسلام بھی ان سے جاتا ہوا نظر آرہا تھا اور وہ وقت کی حاکم قوتوں سے ایسے مجبور ہوئے کہ انہوں نے ان کا ایسا اثر قبول کیا کہ وہ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھنے لگے، اس کی سب سے بڑی مثال سر سید احمد خان کی ہے، الاجل قیاس منکرین حدیث ، قادیانیت ، لبرل ازم ، سوشل ازم ، کمیو ازم ، کیپٹل ازم ودیگر مختلف ازمون کی یلغار تھی‘ مسلم معاشرے پر مسلمان اپنے مرکز خلافت عثمانیہ سے محروم ہوچکے تھے‘ ضرورت اس بات کی تھی کہ دین کا وہ پہلو جو ایک مسلمان کے اندر اس کے لہوکو گرما دے، اس کے تصور دین کو محکومانہ سے حاکمانہ میں تبدیل کردے ۔ مو لا نا مودودی نے اس حقیقت کو بڑی گہرائی میں سمجھا اور پھر اسے اپنی زندگی کا مقصد قرار دے دیا پھر اس کے لیے کسی کی پروا کیے بغیر یہ حق بات ببانگ دہل اجاگر کرتے رہے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ جس قوم میں مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی‘ وہ اپنے مرکز سے آشنا ہوئی‘ اپنی صفوں کو منظم کیا۔ پاکستان اگر چہ ایک اسلامی مملکت نہیں بن سکا، اس لیے کہ اقتدار ان طبقوں کو حاصل رہا جو دیگر ازموں کے علمبردار تھے یعنی طاغوت کے علم بردار تھے لیکن کم سے کم اتنا ضرور ہوا کہ دستور کی بنیاد اسلام پر رکھ دی گئی‘ اس ملک میں لادینیت کو فروغ دینا قانونی جرم قرار پایا اس طرح تعلیم یافتہ طبقے کو دلائل کے زریعے اپنے علم الکام یعنی لٹریچر کے ذریعے ایسا گرویدہ بنا لیا کہ وہ مشکل ترین سوالات جو لوگوں کے ذہنوں میں الجھن پیدا کر رہے تھے ان تمام الجھنوں کو دلیل کی بنیاد پر رفع کیا اور ایک ایسی منظم جماعت بنائی جس میں تعلیم یافتہ افراد اور عام مسلمان شمولیت کرکے فخر محسوس کرنے لگے، ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ارتقاپر گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ ڈاکٹر محمد اسامہ شفیق نے کہا کہ سید مودودی بلاشبہ بیسویں صدی کے امام ہیں۔ سید کی فکر سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کے علمی دلائل کے قائل اور گھائل بھی ہیں۔ سید نے اقامت دین کی اصلاح اس وقت زبان زد عام کی کہ جب دین اور مذہب میں تفریق ختم ہوچکی تھی۔ بیسویں صدی میں احیا اسلام کی کاوشوں میں برصغیر کے چند نامور اکابرین میں سید کا نام اس وجہ سے بھی منفرد ہے کہ نہ صرف انہوں نے علم و فکر کے محاذ پر ایک طرف سوشل ازم کو للکارا تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور اسلام کی اصل دعوت کو عام فہم زبان میں کھول کر بیان کردیا، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس علم و فکر کو محض کتب تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس فکر کی بنیاد پر احیا اسلام کی عظیم الشان تحریک کا آغاز کیا۔ سید مودودی کا یہ کردار بیسویں صدی میں ان کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ سید مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی ، پاکستانی حکومت نے قادیانی گروہ کو کافر قرار دینے پر پھانسی کی سزا سنائی خوش قسمتی سے عالمی دبائو کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سید مودودی کو ان کی خدمات پر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ان کی لکھی گئی قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن جدید دور کی نمائندگی کرنے والی تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ آج جبکہ سید مودودی کے انتقال کو 44 سال ہوچکے ہیں لیکن مغرب میں ان کی فکر کو ہی اصل اسلامی سیاسی فکر کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس پر خود مغربی محققین نے ہر سطح پر کام کرکے ان کی فکر کے ان گوشوں کو اجاگر کیا جو کہ دراصل مغرب کی تہذیب کے تضاد کو بیان کرتے ہیں۔ مغرب و مشرق دونوں جانب احیا اسلام کی جتنی تحاریک برپا کی گئی ہیں ان پر سید کے افکار کی چھاپ نمایاں ہے۔ مستشرقین مغرب تو سید مودودی کو سیاسی اسلام اور اس کی حرکیات کو سمجھنے کے لیے ہر تحقیق میں نہ صرف شامل رکھتے ہیں بلکہ اس کی روشنی میں مسلم ریاستوں پر منتج ہونے والے اثرات کا بھی مشاہدہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ سید کو محض ان کی برسی پر یاد رکھنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا جب تک کہ ان کی فکر کے اثرات کا دائرہ بڑھانے اور اسلام کی حقانیت کو علمی فکری اور عقلی میدان میں استدلال کے ساتھ دین حق کے طور پر پیش کرنے کی سعی و جدوجہد محض نعروں و دعوئوں سے ہٹ کر نہ کی جائے۔