مزید خبریں

کے سی سی آئی کا درآمد شدہ ری سائیکل پلاسٹک پر مکمل پابندی کا مطالبہ

کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد طارق یوسف نے حکومت کو ری سائیکل پلاسٹک کی درآمد کو منفی فہرست میں ڈالنے یا اس پر مکمل پابندی عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے چونکہ پڑوسی ملک سے اسمگل شدہ پلاسٹک کی بڑی مقدار اور قیمت کے لحاظ سے مس ڈیکلریشن نے کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر محصولات کی مد میں صرف 3 ماہ میں 10 سے 12 ارب روپے کا خطیر نقصان پہنچایا ہے جس سے خدشہ ہے کہ یہ نقصان 40 ارب روپے سالانہ تک جائے گا۔صدر کے سی سی آئی کی جانب سے وفاقی وزیر برائے تجارت صنعت و پیداوار ڈاکٹر گوہر اعجاز کو بھیجے گئے خط میں گزشتہ 4 سے 6 ماہ کے دوران پلاسٹک (پولی تھیلین) کی تمام حالیہ درآمدات کا فرانزک آڈٹ کرانے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ درآمد کنندگان سے کہا جائے کہ وہ واضح کریں کہ پڑوسی ملک سے درآمد کے لیے غیر ملکی سپلائرز کو ادائیگی کیسے اور کس چینل کے ذریعے کی گئی ہے۔اس اقدام کے نتیجے میں ترسیلات پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اسمگلنگ کی مالی اعانت کے لیے گرے چینلز کے ذریعے جانے والی بڑی رقوم اور پڑوسی ملک سے درآمدات کے مس ڈیکلریشن کی روک تھام اور بینکنگ چینلز کے ذریعے لین دین کو ترغیب ملے گی نیز انٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر کو بھی سہارا ملے گا۔طارق یوسف نے کہا کہ پاکستان میں ری سائیکل شدہ پلاسٹک درآمد کرنے کی کوئی ضرورت یا منطق نہیں ہے کیونکہ ملک پہلے ہی پلاسٹک کا کچرا اور اسکریپ کی بڑی مقدار پیدا کرتا ہے جسے پاکستان میں کام کرنے والے بہت سے یونٹس ری سائیکل کرتے ہیں لہٰذا کسی دوسرے ملک سے کچرا خریدنے کا کوئی فائدہ نہیں۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایران سے پولی تھیلین اور پولی پروپلین (ایچ ایس 3901 اور 3902) کی تمام درآمدات کا اندازہ ایس اینڈ پی پولیمر اسکین رپورٹ کی ہفتہ وار رپورٹس کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔