مزید خبریں

ٹیچنگ لائسنس پالیسی سے اساتذہ کی قابلیت اورطلبہ کی کردار سازی میں اضافہ ہوگا

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)ٹیچنگ لائسنس پالیسی سے اساتذہ کی قابلیت اورطلبہ کی کردار سازی میں اضافہ ہوگا ‘لائسنس کی تجدید درکار ہونے کی وجہ سے اساتذہ پروفیشنل ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے اپنی مہارت کو اپ گریڈ کرتے رہیں گے ‘اس سے درس وتدریس کا معیاربلند ہوگا ‘ پیپلز پارٹی حکومت میں چور بازاری کا بازار گرم رہا‘سندھ میںلائسنس کے اجراسے بہترکی کوئی امید نظر نہیں۔ان خیالات کا اظہار آل سندھ پرائیوٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشنز کے چیئرمین حیدر علی، دی ایجوکیٹ کی ڈائریکٹر کنول فواد، عثمان اسکولنگ سسٹم کے ڈپٹی ڈائریکٹر احمد صمد خان اورشعبہ تعلیم سے کئی برسوں سے وابستہ منصور خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’سندھ حکومت کی جانب سے اساتذہ کے لیے لائسنس کے اجرا سے تعلیم پر کی اثرات مرتب ہوں گے؟ ‘‘ حیدر علی کا کہنا تھا کہ ٹیچنگ لائسنسنگ پالیسی بہتری کی طرف ایک اچھا قدم ہے‘ آج اسکلز کی اہمیت بہت زیادہ ہے‘ ان سروس ٹریننگ اور ریفریشر کورسز کا طریقہ پہلے سے بھی موجود ہے لیکن ان کو جدید اور ترجیحی بنیادوں پر نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ سندھ کے سابق وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے اس سمت خاصی دلچسپی لی اور اساتذہ کی تعلیم و تربیت کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشش کی جس کو سراہا جانا چاہیے۔ اصل معاملہ
اس کی مکمل منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد ہے اور اس کے ساتھ اگر اس کو پروموشن و دیگر فوائد سے منسلک کیا جائے تو بہتر ہوگا اور کسی بھی پالیسی کے تسلسل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دیرپا نتائج کے لیے اسکول کلچر کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘جہاں بچوں کی شخصیت سازی کو بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ کنول فواد کا کہنا تھا کہ استاد کو ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمار قوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے‘ استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے‘ اسلامی تہذیب و ثقافت ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور تہذیب اسلامی کو آئین پاکستان کے مطابق پروان چڑھانا حکومت وقت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی حکومت سندھ کی جانب سے ٹیچر لائسنس کا اجرا ہے جو معیار تعلیم کی بہتری کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے۔ اساتذہ لائسنس نہ صرف اس بات کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوگا کہ جو اساتذہ تعینات کیے جا رہے ہیں وہ پیشہ ورانہ علم رکھتے ہوں بلکہ ان کے رویے، صفات اور مہارت طلبہ کی کردار سازی اور تربیت میں بھی معاون ہوگی چونکہ اس پروگرام کے تحت لائسنس کی تجدید درکار ہوگی لہٰذا اساتذہ کو ایک مسلسل جاری رہنے والے پروفیشنل ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے اپنی مہارت کو آپ گریڈ کرتے رہنا ہوگا جس سے معیار کاری اور خود احتسابی کو فروغ ملے گا، اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیوں پر والدین اور طلبہ کا اعتماد قائم ہوگا بلکہ فروغ بھی پائے گا جو کہ معاشرے میں اساتذہ کو ان کا جائز مقام دلوانے کا ذمہ دار ہوگا۔ جہاں اس قدم کے فوائد کی بات کی جا رہی ہے وہاں ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ہماری پالیسی اور عملی اقدامات اس لائسنس کے اجرا اور تجدید کے مراحل کو آسان بنانے میں معاونت فراہم کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ٹیچنگ کے پروفیشن کو اپنائیں اور اپنا کردار ادا کر سکیں ساتھ ہی ساتھ وہ تمام اساتذہ جو پہلے سے تعلیمی نظام کا حصہ ہیں وہ بغیر کسی اندیشے اور وسوسے کے اس کا حصہ بنیں اور ہم سب مل کر سیکھنے اور سکھانے کے مل کو فروغ دے سکیں۔ احمد صمد خان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جس طرح نااہل افراد کی بھرتیاں بطور اساتذہ کی گئی ہیں وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہیں‘خاص طور پر دیہات میں اس حوالے سے کوئی پرسان حال نہیں اور شہروں کے اندر بھی یہی حال ہے کہ ان لوگوں کو ہائر کیا جاتا ہے جو لوگ ٹیسٹ ہی کلیئر نہیں کر پاتے اور ان لوگوں کو ملازمت آفر ہوجاتی ہے یعنی جنہیں اپنے ہی مضمون میں مہارت نہیں ہوتی اور آج بھی اگر آپ گورنمنٹ اسکولوںمیں چلے جائیں تو آپ کو یہی حالات نظر آئیں گے لیکن بہرحال تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ قوائد و ضوابط موجود ہیں کہ اساتذہ کے لیے باقاعدہ لائسنس ہوتا ہے تاکہ وہ تدریس کے فرائض انجام دے سکیں، لائسنس کو ہر دوسرے تیسرے سال تجدید کرایا جاتا ہے، ٹیسٹ دینا ہوتا ہے اس سے فرد کی گورمنگ بھی ہوتی ہے اور اس سے بچوں کے اندر بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں‘ ادارے بھی ترقی کرتے ہیں لیکن اگر یہاں سندھ حکومت اساتذہ کو لائسنس دینا شروع کردے جس طرح رشوت دیکر ڈرائیونگ لائسنس دیا جاتا ہے تو پھر ہم یہاں پر بھی دیکھیں گے کہ نام تو ہوگا کہ لائسنس دے دیا گیا ہے لیکن میرٹ کا قتل عام نظر آئے گا، یا تو پھر سب کو ٹیچر لائسنس کے عمل سے گزارا جائے اس کو صاف شفاف رکھا جائے، یقیناً یہ بہت ہی زبردست حکمت عملی ہوگی لیکن اس کی شفافیت پر یہاں پر 10 ہزار سوال ہوتے ہیں۔ ٹیچر لائسنس سے پہلے میں بی ایٹ اور ایم ایٹ پر بات کروں گا‘ کیا جو ہمارے ادارے اس وقت بی ایٹ اور ایم ایٹ کرا رہے ہیں کیا وہاں پر بڑے اچھے انداز سے بچوں کو تیار کرکے نکالا جا رہا ہے اور وہ اس قابل ہیں کہ آگے جا کر تدریس کے فرائض سرانجام دے سکیں‘ بہرحال لائسنس کے جاری ہونے کے عمل سے پہلے بہت سارے معاملات ہیں جن کو ہمیں پہلے ٹھیک کرنا ہوگا‘ پھر ان لوگوں کو جو لائسنس یافتہ ہوں ان کو میرٹ پر مختلف جگہوں پر تعیناتی بھی کرنا ہوگا لیکن پچھلے15 سال سیسندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اس دوران یہاں چور بازاری کا بازار گرم رہا‘ اس میں ہمیں کوئی امید نظر نہیں آتی کہ اس لائسنس کے ہونے سے یہاں پر خاطر خواہ فائدہ نظر آئے گا۔ منصورخان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی طرف سے اساتذہ کے لیے لائسنس کے اجرا سے تعلیم پر بہتر نتائج کی امید ہے اور یہ ایک مثبت قدم ہے‘ اس کی وجہ سے اساتذہ اپنی تعلیم کو بھی اپڈیٹ رکھیں گے جس کی وجہ سے ان کے درس و تدریس کے معیار میں بھی بہتری آئے گی اور اساتذہ کی اپنی قابلیت میں بھی اضافہ ہوگا جب ان کے معیار میں بہتری آئے گی تو یہ تدریس میں آنے والی مشکلات اور مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکیں گے ۔