مزید خبریں

شوہر کی اجازت کے بغیر انفاق

رسول کریمؐ کی ایک حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ سربراہِ خاندان گھرکا امیر ہے اور اس بنا پر جواب دہ بھی ہے (اصل الفاظ مسئول کے ہیں)۔ اس کی غیرموجودگی میں مسئولیت ’امارت‘ کی ذمے داری بیوی کی ہے اور بیوی کی غیرموجودگی میں جو ملازم گھرکا نگراں یا محافظ بنایا جائے اس کی ہے۔ اس حدیث سے جو اصول نکلا وہ بڑا اہم ہے یعنی سربراہ کی حیثیت سے جو فیصلے ایک شوہر یا باپ کو کرنے ہوتے ہیں اس کی غیرموجودگی میں یہی منصب اور مسئولیت اس کی بیوی کی ہوجائے گی۔ ظاہر ہے یہ مسئولیت محض اولاد کی تربیت تک محدود نہیں ہے بلکہ گھر کے تمام معاملات کی ہے جس میں مالی معاملات بھی شامل ہیں۔ فقہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب تک ایک مباح کام سے روکا نہ جائے اس کے کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ آپ کے سلسلے میں چونکہ آپ کے شوہر نے آپ کو خود یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں اس لیے اس سلسلے میں آپ کو مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ بات بھی قرآن و حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے راستے میں دینے کی ذمے داری محض شوہر کی نہیں بلکہ بیوی کی بھی ہے۔ جہاں کہیں بھی قرآن کریم مومن مردوں اور عورتوں کی خصوصیات بیان کرتا ہے وہاں دونوں کا الگ الگ ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے کہ وہ مومن مرد اور وہ مومن عورتیں جو نماز میں خشوع‘ زکوٰۃ پر عامل‘ لغویات سے پرہیز اور عزت کی حفاظت کرنے والے ہیں اور امانتوں اور عہدوں کا پاس کرتے ہیں وہ وراثت میں یعنی بطور انعام کے فردوس پائیں گے۔ (المومنون: 1-10)
یہاں پر زکوٰۃ اور دیگر معاملات میں مومن مردوں اور عورتوں کو انفرادی طور پر ذمے دار اور جوابدہ بتایا گیا ہے۔ اگر ایک بیوی صاحبِ نصاب ہے تو محض شوہر کی جانب سے اپنے اثاثے پر زکوٰۃ دینے سے وہ بری الذمہ نہیں ہوجاتی۔ ایسے میں جب آپ کے شوہر نے گھر کے خرچ میں آپ کو مکمل اختیار دیا ہے تو اب مسئولیت آپ کی ہے اور آپ کو خود اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔
یہ بات بہت خوشی کا باعث ہے کہ آپ کے شوہر الحمدللہ خود اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن کسی وقت یہ غور کریں کہ اللہ کے رسولؐ سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود جب آپؐ ایک مرتبہ گھر تشریف لاتے ہیں اور اْم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کہیں سے گوشت تحفتاً آیا تھا‘ انھوں نے اس کا بیش تر حصہ اللہ کی راہ میں دے دیا اور صرف ایک دست نبی کریمؐ کے لیے بچاکر رکھا ہے تو شارعِ اعظمؐ نے جو بات فرمائی اس سے بہت سے اصول نکلتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہی تو بچ گیا۔ گویا اللہ کی راہ میں جتنا دیا جائے گا وہ دینے والے کے حساب میں سات سو گنا یا اس سے بھی زائد بڑھا کر جمع ہوگیا۔ کیا آپ اور آپ کے شوہر یہ پسند نہیں کریں گے کہ جو کچھ وہ دیں اس کا اجر تو انھیں ملے ہی‘ ساتھ میں جو آپ اس طرح دیں کہ دوسرے ہاتھ (یعنی آپ کے شوہر کو) کو اس کی خبر نہ ہو وہ بھی ان کے اور آپ کے حساب میں اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہوجائے؟
اگر کبھی آپ ضرورت محسوس کریں تو شوق سے اس کا ذکر بھی شوہر سے کرسکتی ہیں لیکن اگر ناراضی کا خطرہ ہو تو ذکر کرنا ضروری نہیں۔ ایک مرتبہ ملکیت جب آپ کے ہاتھ میں منتقل ہوگئی تو اب آپ کی صواب دید زیادہ معتبر ہوگی۔