مزید خبریں

وحی پر مبنی اسلامی ثقافت

وحی پر مبنی اسلامی فکر وثقافت درحقیقت مقاصدِ شریعت کے حصول اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر معاشرتی، معاشی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی سرگرمیوں کی تہذیب کرتی ہے۔ اسلامی فکروثقافت کا یہ پہلو نگاہوں سے اوجھل رہے تو اسلامی ثقافت کو محض چند علاماتی افعال سے تعبیر کردیا جاتا ہے یا یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک ’مذہبی‘ ثقافت ہے اس لیے اس کے اصل مخاطب جماعتِ علما و صوفیہ کے افراد ہیں اور یہ انھی کے لیے مناسب ہے۔ دیگر افراد نہ ان کی طرح ’مذہبیت‘ اور ’روحانیت‘ اختیار کرسکتے ہیں اور نہ اس ثقافت پر عمل کرسکتے ہیں۔ ایک عام مسلمان جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ’مذہب‘ نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ کی حد تک ہے، جب اْس سے کہا جائے کہ اسلامی فکروثقافت میں مخلوط تعلیم، مخلوط کاروباری ادارے جہاں پر بنک میں، انجینیرنگ کمپنی میں اور عدالت میں ایک ہی نشست پر شانہ بہ شانہ مرد اور عورتیں بیٹھی ہوں یہ اسلامی فکروثقافت کے منافی ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے معاملات میں مذہب کے دخل کی کیا ضرورت؟ یہی وجہ ہے کہ ایک بظاہر دینی رجحان اور شخصیت رکھنے والے فرد کے گھر میں بھی جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو مرد وزن بنائو سنگھار کرنے کے بعد بلاتکلف خلط ملط ہوتے رہتے ہیں اور ایسے افراد کی ’مذہبیت‘ کو اس سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکر وثقافت کو جب تاریخ کا ایک باب سمجھتے ہوئے ماضی کے واقعات میں دفن کردیا جاتا ہے تو نظامِ تعلیم میں بھی اسلامی فکروثقافت کی بنیادوں پر گفتگو بند ہوجاتی ہے۔ اْمت مسلمہ نے اپنے دورِ زوال میں عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح مذہب اور ثقافت میں ایک خیالی خطِ فاصل کھینچ دیا۔ چنانچہ مذہبی مراسم کے پورے اہتمام کے ساتھ شام کے اوقات میں کسی محفل موسیقی یا شامِ غزل میں مخلوط محفلوں میں بیٹھ کر فن کاروں کی زبانی کلاسیکل شعرا کا کلام کلاسیکل گائکوں سے سننا ثقافت ٹھیرا اور اس عمل اور اسلامی عقیدے میں انھیں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت انسان کو ہرہر دائرے میں تخلیق و ایجاد کی دعوت دیتی ہے لیکن ہر شعبۂ حیات کو قرآن کریم کے دیے ہوئے مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں جو مقاصدِ حیات سے آگاہ کرتے ہیں، سرگرمیوں کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ثقافت اپنے ماننے والوں کو ندرت، حصولِ کمال اور انفرادیت کے ساتھ زندگی کے تعمیری سفر میں آگے بڑھنے کی طرف اْبھارتی ہے۔ ایک عملی ثقافت ہونے کے سبب یہ اْمت کے ہر دور کے مسائل کو مقاصدِ شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔