مزید خبریں

جذبات میں اعتدال

انسان کی بنیادی خواہشوں کے دوش بدوش اس کے جذبات ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان میںافراط و تفریط کا شکارہوجائے تو اس کی زندگی تباہی سے دوچار ہوجاتی ہے۔ ان جذبات میں خوف و رجاء، محبت ونفرت اور خوشی وغم اہم ہیں اور ان کی انسانی زندگی میں خاص اہمیت ہے۔ اسلام نے ان میں سے کسی بھی جذبے کو بالکلیہ ختم کرنے کی تعلیم نہیں دی ہے۔ بلکہ ان میں اعتدال کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیث ِ رسولؐ میں ان کی تفصیلات بکثرت موجود ہیں۔
خوف ورجا کے ساتھ محبت و نفرت کا جذبہ بھی انسان کے اندر انتہائی شدید ہوتا ہے اور اس میں بھی عموماً افراط و تفریط کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ جس شخص کے دل میں نفرت کے جذبات ہوں وہ اس آتش فشاں پہاڑ کے مانند ہے، جس کے اندر لاوے بھڑکتے اور باہر رہتے ہیں۔ اس جذبے کے تسلط سے آدمی درندے کی شکل اختیارکرلیتا ہے اور اس سے نیکی و بدی کی تمیز مٹ جاتی ہے، دوستی اور محبت کے پاک رشتے، قرابت اور رحم کے مقدس تعلقات اور عزت و حرمت کے قیمتی رابطے سب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس محبت کا جذبہ ہے اور یہ بھی اپنی شدت میں کسی طرح کم نہیں ہوتا ہے۔ اگر نفرت آدمی کو ایک انتہا پر لے جاتی ہے تو محبت بھی اس کو دوسری انتہا پر لے جاتی ہے۔ اسلام نے ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال و توازن قائم کیا ہے۔ اس کے لیے فی نفسہ نفرت ناپسندیدہ نہیں ہے کیوں کہ آدمی کے اندر غیرت نام کی کوئی چیز نہ ہو تو وہ باعزت زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔ جبکہ انسان فطری طور پر عزت ووقار کا طالب ہے۔ چنانچہ اسلام نے غصے کو بالکلیہ ختم کردینے والے کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ غصے کو پی جانے والوں کی تعریف کی ہے۔ اِرشاد ہے:
’’جو لوگ بدحالی اور خوش حالی ہر حال میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسرے کے قصور کو معاف کردیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (اٰل عمران: 134)
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے۔ (بخاری کتاب الادب)
کسی پر اگر زیادتی ہوئی ہو تو شریعت میں اس کی اجازت ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے سے اس کے مثل بدلہ لے۔ لیکن عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وہ اگر اس کو معاف کردے تو یہ ا س کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
’’اور اگر تم لوگ بدلا لو تو بس اْسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہے لیکن اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے‘‘۔ (النحل: 126)
انسان بغض وعداوت کے اظہار میں بسااوقات افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ نبی کریمؐ نے اس معاملے میں افراط و تفریط سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔
’’دوست سے محبت اعتدا ل کے ساتھ کرو۔ کسی دن وہ تمہارا دشمن بن سکتا ہے۔ دشمن سے نفرت کو حد سے آگے نہ بڑھنے دو ممکن ہے وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔‘‘ (اقتصادی فی رطب والبغض، نمبر 1992)
غم ومسرت کا جذبہ بھی انسانی زندگی میں نہایت اہم ہے۔ انسان فطری طور پر خوشی کا طالب ہوتا ہے جب کسی طرح سے اس کی خوشی چھِن جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو غم زدہ پاتا ہے۔ اس بارے میں بھی وہ افراط و تفریط میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اسلام نے ان کے درمیان اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ نہ خوشی میں افراط ہو نہ غم میں تفریط ہو۔ کوئی شخص اگر مشکلات و مصائب سے دوچار ہو تو وہ بدرجہ افراط غم نہ کرے اور اگر اس کو خوشی لاحق ہو تو اس میں وہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوئی اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ تمہیں اللہ عطا فرمائے اس پر پھول نہ جائو۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ہے جو اپنے آپ کو بری چھیز سمجھتے ہیںاور فخر جتاتے ہیں‘‘۔ (الحدید:23-23 )