مزید خبریں

اساتذہ مکالمے اور نصاب تعلیم کے ذریعے رواداری، محبت اور امن کو فروغ دے سکتے ہیں

کراچی (رپورٹ: حماد حسین)اساتذہ مکالمے اور نصاب تعلیم کے ذریعے رواداری، محبت اور امن کو فروغ دے سکتے ہیں‘ تعلیمی اداروں میں متعدل ماحول کو فروغ دینا ہوگا، کردار سے طلبہ کی اصلاح کرنی چاہیے، اساتذہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ،حکومت کا کردار بھی ضروری ہے‘ ہر عقیدے، زبان و رنگ نسل کی تعظیم و تکریم کرنے والے اساتذہ کو طلبہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کے افکار کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمر اور آل سندھ پرائیوٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشنز کے چیئرمین حیدر علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’اساتذہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کیا کردار اداکر سکتے ہیں؟‘‘ محمد احمد قادری کا کہنا تھا کہ اساتذہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور اساتذہ کو صرف نصابی ذمہ داری نہیں دی جاسکتی کہ بچوں کو بس تعلیم دیں اور اس حد تو اپنے آپ کو محدود رکھیں بلکہ ایک استاد کا مذہبی، دینی اور معاشرتی فریضہ یہ ہے کہ وہ معاشرے سے نفرتوں کا خاتمہ کرے اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو ایک متوازن شخصیت کی حیثیت سے پیش کرکے طالب علموں کو اس حد تک متاثر کرے کہ طالب علم اس کی مثالیں دیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اساتذہ انتہا پسندانہ مزاج کے نہیں ہوتے اور ہر عقیدے ، ہر زبان و رنگ نسل اور ہر ثقافت کی عزت کرتے ہیں ان کی بات کو نہ صرف سنا جاتا ہے بلکہ ایسے طالب علم اپنی زندگی کا حصہ بھی بناتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اکثر اساتذہ نے معاشرتی تغیرات کو دیکھتے ہوئے اپنے کردار کو محدود کرلیا ہے اور معاشرے سے بالکل الگ تھلگ ہوگئے ہیں اور شاید اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرہ بھی صرف یوم تکریم اساتذہ ایک دن منا کر سمجھ لیتا ہے کہ بس استاد کی عزت ہوگئی۔ مختصر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اساتذہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کلاس روم میں بھی بات کی جائے اور کلاس روم سے باہر بھی بات کی جائے اور مکالمے کے ذریعے اور غیر جذباتی انداز سے اور اپنے ذہنی تصورات سے ہٹ کر اگر استاد کردار ادا کرے تو یقینا ایک سماجی انقلاب آسکتا ہے۔ ثریا قمرکا کہنا تھا کہ کوئی بھی ادارہ ہو، چاہے وہ تعلیمی ادارہ ہو، صنعتی ہو یا کسی اور سطح پر اس کا نظام جاری و ساری ہو وہ تنہا کچھ نہیں کرسکتا تا وقت ریاست جو ہے اس نے کوئی ایسے بنیادی امور انجام نہ دیے ہوں جس سے شدت پسندی کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے۔ شدت پسندی ہے کیا؟ کسی ایک پوائنٹ آف ویو یا اپنی سوچ ہے، اس کے مطابق انسان یہ چاہے کہ جو میں چاہتا ہو وہ ہوجائے یا ایک گروپ یہ چاہتا ہو جو ہم چاہیں وہ ویسے ہونا چاہیے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ایسے گروپ موجود ہیں جو ریاست کو چیلنج کرتے ہیں لیکن ریاست کا نظام ان اصولوں پر چلایا جائے کہ جہاں انصاف ہو جہاں عام لوگوں کو اپنے حقوق ملیں اور وہ مطمئن زندگی گزاریں تو یہ گروپ جو ہیں خود بخود اپنی موت آپ مر جاتے ہیںاور رہی مذہبی سطح پر بات تو دنیا کے ہر ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں اور وہاں رہتے ہیں، لوگ اطمینان و سکون سے اپنے امور ادا کرنے میں آزاد ہے، کوئی سیکولراسٹیٹ ہو وہاں یقیناً مسلمان آباد ہوں گے تو وہاں مزاحمت کا ایک سامنا ہوگا۔ اگر کوئی ریاست یہ چاہتی ہے کہ شدت پسندی کو روکا جاسکے تو اس کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے، اب اس میں جو استاد ہے اس کی کوشش یہ ہونا چاہیے جو نصاب تعلیم وضع کیا گیا ہے اس کو اس انداز سے ترتیب دیا جائے کہ وہ ہمارے عقائد سیمطابقت کرتا ہو۔ یعنی نصاب تعلیم کو اس انداز سے ترتیب دے کہ جس سے معاشرے میں ایک رواداری محبت اور امن کے فروغ کے لیے کوششوں میں کامیابی حاصل ہوسکے۔ اور شدت پسندی زیادہ وہاں جنم لیتی ہے جہاں لوگ بے چین ہوں، ان کی زندگی میں سکون کا عمل دخل نہ ہو‘ اسلام میں انتہاپسندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام امن کا داعی ہے، خیر کا داعی ہے اور خیر کی دعوت دیتا ہے۔ اور اس کے معاشرے میں جو غیر مذہب کے لوگ بس رہے ہوں ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریمؐ اور خلیفہ راشدین نے اقلیتوں کو پورے حقوق دیے تھے، جبر سے یہ نہیں کہا تھا کہ اسلام قبول کرلو۔ استاد جو ہیں اس نصاب کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوتے ہیں جو انہیں پڑھانے کے لیے دیا جاتا ہے، اگر اس میں کوئی دوسرے مذہب کا طالب علم ہے یہ نوٹ کیا جائے کہ کوئی فکری اعتبار سے کسی میں شدت پسندی ہے یا غصے میں ہے تو اس پر توجہ دیں اور اپنے عمل سے اس کی شدت پسندی کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ نبی کریمؐ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جہاں امن تھا اور اخلاق بالا تر تھے اور عدل اس کی بنیاد تھی۔ استاد یہ کرسکتا ہے کہ اپنی کلاس روم میں ایک ایسا ماحول پیدا کرے جس سے وہ شخص جس کے اندر شدت پسندی کاعنصر موجود ہے تو اس کا خاتمہ ہوسکے۔ بھارت میں مختلف تنظیمیں ہیں جو انتہائی شدت پسند ہیں اور مسلمانوں کے وجود کو برداشت نہیں کرتیں۔ ہمارے یہاں اس طرح تو نہیں ہے کہیں کہیں یہ مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ کسی نے کہا تھا کہ جب مولانا مودودیؒ کی ذات پر کوئی اعتراض ہوتا تھا تو وہ کبھی جواب نہیں دیتے تھے، یہ آف دی ریکارڈ میں بات کر رہی ہوں کہ تحریری طور پر وہ لوگوں کو رہنمائی دیتے تھے لیکن جہاں محمدؐ کی شان میں گستاخی کا معاملہ ہو تو اس کا جواب دینا چاہیے۔ لیکن مسلمان کو اس عمل سے روکا گیا ہے کہ ردعمل کے طور پر وہ کوئی ایسا عمل کرے کہ جس سے دوسرے جو مذاہب ہیں ان کے ماننے والوں کو تکلیف پہنچے، یا ان کی جو عبادت گاہوں کو جلایا جائے۔ حیدر علی کا کہنا تھا کہ اساتذہ کو معاشرے میں چینج ایجنٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے لہٰذا استاد رجحانات کی تشکیل میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اساتذہ گروتھ مائنڈ سیٹ کی ترویج کے ذریعے شدت پسند رجحانات کو بہت زیادہ کم کر سکتے ہیں ۔ اساتذہ خود محبت اور خلوص سے اپنے کام کو انجام دے کر افراد میں وسیع النظری بآسانی پیدا کرسکتے ہیں ۔ اساتذہ معاشرے میں ورلڈ ویو بنانے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ جامع اور جدید ورلڈ ویو خیالات کو معتدل بنانے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے‘ اساتذہ طریقہ تدریس میں اشتراک عمل پر مبنی سرگرمیوں کے ذریعے ایک دوسرے کی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں ۔ اساتذہ والدین کے ساتھ مل کر اینگر مینجمنٹ اور اسٹریس کو کنٹرول کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔