مزید خبریں

انسانی ضرورتوں میں اعتدال

انسان کے اندر بنیادی طور پر تین خواہشیں پائی جاتی ہیں: کھانے پینے کی خواہش، جماع کی خواہش اور ریاست (اقتدار) کی خواہش۔ اسی طرح اس کے اندر تین طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں: خوف و رجا، محبت و نفرت اور خوشی و غم۔ ان سب معاملات میںاسلام نے اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ کھانا پینا انسان کی ایک فطری ضرورت ہے، اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس میں افراط کاپہلو یہ ہے کہ کھانے پینے ہی کو زندگی کامقصد سمجھ لیا جائے۔ اسلام نے انسان کو کھانے پینے سے منع نہیں کیا ہے۔ البتہ کھانے پینے میں حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے۔
’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الاعراف: 31)
کھانے پینے میں اسراف کا ایک ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے ضرورت سے زیادہ اہتمام کیا جائے۔ لیکن اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ کھانے پینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا جائے۔ نبی کریمؐ نے اِسے اِس تمثیل کے ذریعے واضح کیا ہے:
’’بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے اور ربیع بے شک ہر طرح کی ہریالی اگاتی ہے مگر حبط (ایک مخصوص پودا جس سے پیٹ پھول جاتا ہے) کھالینے والے کو مار ڈالتی ہے یا مرنے کے قریب کردیتی ہے۔ لیکن وہ جانور جو صرف ہریالی چرے اور جب اس کا پیٹ بھرجائے دھوپ میں بیٹھ کر جگالی کرنے لگے پھر پیشاب وپاخانہ کرے اور پھر ہریالی چرنے لگے تو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ بے شک یہ مال لذیذ ہے جس نے اس کو حق کے ساتھ لیا اور حق کی جگہ خرچ کیا۔ تو وہ بہترین مددگار ہے۔ لیکن جس نے اس کو بغیر حق کے لیا تو اس کی مثال اس جانور کی ہے جو کھائے مگر آسودہ نہ ہو‘‘۔ (بخاری)
انسان کی دوسری بنیادی خواہش جماع ہے۔ یہ بھی ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے سے انسان کی نسل باقی رہتی ہے۔ کھانے پینے کی خواہش کی طرح اس میں بھی افراط وتفریط کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے۔ بعض مذاہب میں تجرد و رہبانیت کی تعلیمات ملتی ہیں جن سے اس فطری خواہش کی بیخ کنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی نظریات نے جنسی خواہش کی تکمیل کو تمام حدود و قیود سے آزاد کردیا ہے اور انسانیت کو حیوانیت کے درجے پر گرادیا ہے۔ اسلام نے ان کے بیچ اعتدال قائم کرکے اس بنیادی خواہش کی تکمیل کی پوری آزادی دی ہے۔ وہ حدود یہ ہیں کہ وہ اس خواہش کی تکمیل صرف نکاح کے ذریعے کرے۔
’’یقینا فلاح پائی ایمان والوں نے جو اپنی زبان میں خشوع اختیارکرتے ہیں۔ لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جوان کی ملکیت میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اْس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔ (المومنون: 1-7)
انسان کی تیسری بنیادی خواہش ریاست (اقتدار) ہے۔ شریعت کے نزدیک یہ بھی کوئی شجرممنوعہ نہیں ہے۔ اگر کسی کو اقتدار حاصل ہوتو وہ اس سے پوری طرح مستفید ہوسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں عدل و انصاف کے دامن کو نہ چھوڑے اور ظلم وطْغیان کی راہ نہ اختیارکرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے‘‘۔ (النساء: 58)
امارت و خلافت اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے، اس کے بارے میں واضح احکام و تعلیمات قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بغیر بہت سے دینی و دْنیوی مصلحتوں کاحصول ناممکن ہے۔ اس کے بغیر مکمل سماجی عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ چنانچہ علمائے اسلام نے امارت و خلافت کے قیام کو واجب قرار دیاہے۔ شرح عقائد نسفی میں ہے:
’’اور واجب ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک کام ہو جو ان کے لیے احکام کا نفاذ عمل میں لائے، ان کے درمیان حدوداللہ کو قائم کرے، ان کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔ ان سے صدقات وزکوٰۃ کی وصول یابی کرے اور سرکشوں، چوروں اور ڈاکوئوں کو سزائیں دے‘‘۔ (شرح العقائد النسفیہ)
اما ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’جب اقتدار اور مال کا مقصود اللہ کی غربت کا حصول اور اس کے راستے میں اِنفاق کی نیت ہو تو یہ دین اور دنیا کی بہتری کا ضامن ہے۔ لیکن اگر اقتدار دین سے جدا ہوجائے یا دین کا رشتہ اقتدار سے باقی نہ رہے تو پھر لوگوں کے معاملات خراب ہوئے بغیر نہ رہیں گے‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی و الرعبۃ)
جس طرح دنیا کے دیگر امور کی انجام دہی کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، اسی طرح حکومت و امارت کی انجام دہی کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔ ان میں رعایا کے درمیان ہر طرح کا عدل و انصاف قائم کرنا، ان کے انسانی حقوق کی رعایت اور ریاست میں امن وامان کے ساتھ ان کو زندگی گزارنے دینے کا موقع دینا خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو حق و انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے بنو۔ اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے۔ خواہ یہ تمہارے اپنے ہی خلاف یا والدین اور راشتے داروں کے ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ (النساء: 135)