مزید خبریں

لیاری یونیورسٹی کے چہیتے افسر 2 سرکاری تنخواہیں لینے کا انکشاف

کراچی (رپورٹ : حماد حسین) لیاری یونیورسٹی کے چہیتے افسر کی جانب سے 2 سرکاری تنخواہیں برس ہا برس تک وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈاکٹر ظفر شیخ نے کالج ایجوکیشن کراچی کے علاوہ بینظیر بھٹو یونیورسٹی میں قائمقام رجسٹرار ، لیکچرار ، دو شعبوں کے ڈائریکٹر کے عہدوں کی بھی تنخواہیں وصول کیں۔ غیر قانونی طور پر تعینات موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر
امجد سراج میمن بھی کارروائی سے گریزاں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ نے 2012ء میں بی پی ایس 18 میں بھرتی ہونے والے لیکچرار ڈاکٹر ظفر شیخ کو 2016ء قائم مقام رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر فریدہ اعظم لودھی کے دور میں پی ایچ ڈی کرنے کی وجہ سے اسسٹنٹ پروفیسر بی پی ایس 19 (ایڈہاک) تعینات کیا، جس کی کنفرمیشن کے لیے کیس سلیکشن بورڈ اور سنڈیکیٹ میں سفارش کرتے ہوئے بھیج دیا۔ بعدازاں مذکورہ اجلاس ہوتے رہے لیکن ان کا کیس پیش کرنے سے گریز کیا گیا۔ انہیں گریڈ 19 کی پوسٹ ڈائریکٹر اورک پر تعینات کیا گیا اور کچھ ہی روز میں ڈائریکٹر کیو اے سی کی اضافی ذمہ داری بھی انہیں تفویض کر دی گئی جو گریڈ 20 کی اسامی ہے۔ ڈائریکٹر اورک کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جو اہلیت رکھی ہے اس کے مطابق مذکورہ شعبے میں 10 برس کا تجربہ لازم ہے جبکہ وہ یونیورسٹی میں ہونے والی ریسرچ سرگرمیوں میں اضافہ اور ترقی کے لیے اپنے تجربے کی روشنی میں خدمات انجام دے گا، وہ بزنس کمیونٹی کے ذریعے ریسرچ کے فنڈ کا بندوبست بھی کرے گا اور اس کے کاروباری حلقے میں بہتر تعلقات ہونا بھی ضروری ہیں تاکہ طلبہ کو فائدہ پہنچ سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر ظفر شیخ نے قائم مقام رجسٹرار کا عہدہ سنبھالتے ہی خود اپنے ہی دستخط سے خود کو اسسٹنٹ پروفیسر تعینات کر دیا اور اس حکمنامے میں لفظ ایڈہاک استعمال کرنے سے گریز کیا۔ 13 کو جاری ہونے والے ایڈمن آرڈر NO.BBSUL/ADMIN/2019/4323 کے مطابق رجسٹرار ظفر احمد شیخ گریڈ 19 میں تعینات ہو گئے۔ اس کے برعکس 22 جنوری 2016ء میں قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر فریدہ عظیم لودھی کے دستخط سے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کی وجہ سے ایڈہاک ترقی دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر ظفر شیخ کے حوالے سے مذکورہ بے ضابطگیاں ایک طرف، وہ کئی برس تک 2 سرکاری تنخواہوں کے مزے بھی لوٹتے رہے ہیں۔ یہ انکشاف ستمبر 2020ء کو گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کے نام انہی کے ایک خط میں ہوا۔ یہ خط ڈیوٹی نہ دینے اور مستقل غیر حاضری کے باعث ’’وارننگ لیٹر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ظفر شیخ کو پرنسپل کی جانب سے ریفرنس نمبر No.GIACC/389/2020 dated:28-09-20 کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ مذکورہ وارننگ لیٹر کے جواب میں اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی نے لکھا کہ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹر نے انہیں چلنے پھرنے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کالج میں کلاسز نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کالج کے ساتھیوں نے انہیں گھر میں آرام کا مشورہ دیا تھا جو کہ ان کی بیماری سے واقف ہیں۔ چھٹیوں کے دوران انہوں نے گھر بھی تبدیل کیے جس کی وجہ سے انہیں کالج پرنسپل کی طرف سے بھیجا گیا پہلا وارننگ لیٹر موصول نہیں ہوا۔ شاید وہ پرانے فلیٹ پر ارسال کیا گیا ہو گا۔ انہوں نے اس خط میں وارننگ لیٹر کی منسوخی کی درخواست کی۔ لیاری یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے کے دوران ڈاکٹر ظفر احمد شیخ کا نام 19 اگست 2019ء کی سینیارٹی لسٹ میں بھی 1025 نمبر پر ظاہر ہوا۔ یہ سینیارٹی لسٹ کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ کی طرف سے جاری کی گئی تھی۔ اس فہرست کے مطابق 18 جون 1977ء ان کا یوم پیدائش ہے، وہ 2001ء￿ میں سندھ پبلک سروس کمیشن امتحان پاس کر کے 23 اپریل 2002ء￿ میں بھرتی کیے گئے تھے۔ 31 اکتوبر 2018ء کو ترقی کے مرحلے میں شامل کرتے وقت وہ جامعہ ملیہ گورنمنٹ کالج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر ظفر شیخ قانون کے برخلاف2 سرکاری ملازمتیں کرتے رہے اور 2 سرکاری تنخواہوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی میں 2012ء میں بطور لیکچرار ملازمت اختیار کی اور تمام تر مراعات حاصل کیں جبکہ سابق وائس چانسلر کے آشیرباد سے قائم مقام رجسٹرار اور دیگر عہدوں پر بھی براجمان رہے، دوسری جانب 2018ء میں وہ یہاں خدمات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جامعہ ملیہ سے بھی تنخواہیں وصول کرتے رہے، اس طرح بعد میں کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے انہیں گورنمنٹ اسلامیہ کالج ٹرانسفر کر دیا جہاں سے وہ مستقل غیر حاضر رہے لیکن انہیں وہاں سے بھی سرکاری ادائیگیاں کی جاتی رہیں۔ ان کی جانب سے سیکرٹری تعلیم سندھ کو 18 مئی 2011ء کو لکھی گئی ایک ڈیوٹی رپورٹ بھی موصول ہوئی جس میں انہوں نے 21 ماہ سرکاری چھٹی کے بعد خود کو خدمات کے لیے پیش کیا تھا، اس درخواست میں انہوں نے بتایا کہ ان کی پی ایچ ڈی کی تعطیلات 31 مئی 2012ء کو ختم ہو گئی ہیں اور وہ یکم جون کو حاضر ہو گئے ہیں۔ انہیں ان کی درخواست پر گورنمنٹ اسلامیہ کالج سکھر تعینات کر دیا گیا جبکہ وہ لیاری یونیورسٹی میں بھی ملازمت حاصل کر چکے تھے۔ بعدازاں کالج ایجوکیشن کراچی میں تبادلہ کرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ملازمت لیاری یونیورسٹی میں جاری رکھی اور کالج ایجوکیشن میں گھوسٹ ملازم بن کر تنخواہ اور مراعات لیتے رہے، یکم فروری 2021ء کو پرنسپل غلام نبی بلیدی نے مستقل غیر حاضری پر تنخواہ روکنے کے لیے ڈائریکٹر کالج ایجوکیشن کو خط بھیج دیا جس میں بتایا گیا کہ وہ کالج پڑھانے آتے ہی نہیں ہیں۔