مزید خبریں

کلام نبوی کی کرنیں

سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جس شخص کے پاس گواہی ہو اوروہ گواہی کے لیے بلاوے کے وقت گواہی کو چھپا دے (نہ دے) تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے جھوٹی گواہی دی‘‘۔ (طبرانی)
ووٹ دینا بھی گواہی ہے۔ اہل لوگوں کو ووٹ دینا سچی گواہی دینا ہے‘ نااہلوں کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے۔ ووٹ نہ دینا بھی جھوٹی گواہی کے حکم میں ہے۔ ایک ووٹر اپنی گواہی اور ووٹوں میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ وہ جتنے لوگوںکو ووٹ کے صحیح استعمال کے لیے لائے گا اس کے کھاتے میں اتنے ہی لوگوں کے ووٹ کی نیکی لکھ دی جائے گی۔ دس، بیس، سو، ہزار‘ جتنے لوگ اس کی آواز پر ووٹ دیں گے ان کے اجر میں وہ شریک ہوگا‘ بغیر اس کے کہ کسی ووٹر کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ ہے کوئی جو اس ثواب کے لیے آگے بڑھے‘ جدوجہد کرے‘ اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرے۔ ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔ (المطففین : 26)
٭…٭…٭
سیدنا ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے اپنے اہل بیت کے لیے دعا کی تو سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ اور گھرانے کے دوسرے افراد کا ذکر کیا۔ سیدنا ثوبانؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں بھی آپؐ کے گھرانے میں شامل ہوں (یعنی مجھے بھی اس سعادت سے نوازا جائے کہ آپؐ کے گھرانے میں شامل ہو جائوں)۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘ بشرطیکہ کسی بادشاہ کے دروازے پر کھڑے نہ ہوجائو اور کسی امیر کے پاس سائل بن کر نہ جائو۔ (طبرانی)
غور فرمایئے کہ آپؐ نے اہل بیت میں شامل کرنے کو کن باتوں سے مشروط کیا ہے۔ ہم کو اللہ کے رسولؐ سے محبت کے کتنے دعوے ہیں اور کون اہل بیت میں شامل ہونا اور اللہ کے رسولؐ کی دعا کا حق دار ہونا نہ چاہے گا لیکن اہل اقتدار کے دروازوں کے آگے کھڑے رہنے اور اہل مال کے پاس سائل بن کر جانے سے بچنے والے کتنے ہیں۔
٭…٭…٭
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ روزانہ جب لوگ صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے بھی آسمان سے اترتے ہیں۔ وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما۔ اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو تلف فرما۔ (متفق علیہ)
جسے فرشتے دعائیں دیں‘ اس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا اور جس کے لیے فرشتے بددعائیں کریں اس کی بدبختی کا کیا ٹھکانا! خرچ کرنے والا صرف خرچ نہیں کرتا بلکہ کمائی کرتا ہے اور نعم البدل پاتا ہے‘ اور بخل کرنے والا اپنی بچت نہیں کرتا بلکہ اپنے مال کو تباہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جوکچھ تم خرچ کر دیتے ہو اْس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔ (سبا: 39)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جو شخص پہلی صف کو اس نیت سے چھوڑتا ہے کہ لوگوں کو ایذا نہ دے‘ اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو بڑھا دیتے ہیں اور اسے پہلی صف کا اجر عطا کرتے ہیں۔ (طبرانی)
اللہ کی بندگی میں آگے ہونے‘ پہلی صف میں کھڑا ہونے کی بڑی فضیلت ہے‘ لیکن دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نہیں۔ اگر کہیں تیز رفتاری سے آگے بڑھنا دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہو‘ تو آدمی کو چاہیے کہ رفتار کم کر دے‘ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رک جائے‘ اللہ کے ہاں اس کا شمار اگلی صف میں ہو جائے گا‘ اسے پہلی صف کا ثواب ملے گا۔ عبادت اور عبادت گزار دوسروں کی ایذا کا نہیں بلکہ ان کی راحت کا سبب بنتے ہیں۔