مزید خبریں

کراچی کے تاجروں کا بجلی کے بل جمع نہ کرانے کا اعلان

کراچی/اسلام آباد (نمائندگان جساسرت) کراچی کے تاجروں نے بجلی کے بلوں کی ادائیگیاں نہ کرنے کا اعلان کردیا۔پیر کو کراچی کے کاروباری مرکز صدر میں تاجر تنظیموں کا مشترکہ ہنگامی اجلاس ہوا۔اجلاس میں کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدررضوان عرفان ،اسمال ٹریڈرز کے صدر محمود حامد ،سٹی تاجر اتحاد کے صدر شر جیل گوپلانی اورصدر کوآپریٹو مارکیٹ کے رہنما محمد اسلم خان زرگراں ویلفیئر الائنس کے سیکرٹری معراج احمد کریم سینٹر کے اسلم قریشی موٹر سائیکل ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر احسان گجر اولڈ سٹی الائنس کے رہنما شیخ عالم گلبہار ٹریڈرز کے رہنما جاوید قریشی لیاقت آباد ٹریڈرز کے راہنما بابر بنگش میریٹ روڈ کے رہنما حاکم خان اسپورٹس مارکیٹ کے رہنما سلیم ملک کپڑا مارکیٹ کے محمد شعیب انٹر نیشنل مارکیٹ کے محمد ربان فٹ وئیر مارکیٹ کیرہنما حافظ طیب الیکٹرانکس مارکیٹ ناصر ترک اور سلیم میمن بھی شریک ہوئے۔بعد ازاں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدررضوان عرفان ،اسمال ٹریڈرز کے صدر محمود حامد ،سٹی تاجر اتحاد کے صدر شر جیل گوپلانی اور اسلم خان و دیگر نے کہا کہ کے الیکٹرک کی بدمعاشی اور لوٹ مار کے خلاف اس کے دفاتر کا بھی گھیراؤ کیاجائے گا،تاجر کے الیکٹرک فراڈ بلوں کی ادائیگی نہیں کریںگے،انہوں نے حکمرانوں سے سوال کیا کہ 70 فیصد ٹیکس دینے والے کراچی کے عوام کو کیا سہولیات دی ہیں؟پورشہر ڈاکوؤں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر ہے،بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث کاروبار ختم اور انڈسٹری بند ہورہی ہے،ان معیشت دشمن فیصلوں کے باعث بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جرائم پیشہ گروہ منظم اور سر گرم ہورہے ہیں۔تاجر رہنماؤں نے کہا کہ ایک جانب کہا جاتا ہے کہ ملک دیوالیہ کی قریب پہنچ گیا ہے ،دوسری جانب اشرافیہ کو اربوں روپے کی گاڑیاں خرید کر دی جارہی ہیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ معیشت کو تباہ ہو نے اور تاجروں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیلنے کے فیصلے واپس لیے جائیں،عوام دشمن پالیسیوں، ہوشربا مہنگائی کے باعث تاجر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کراچی کے تاجروں کا دوسرا احتجاج بدھ 23 اگست کو ریگل چوک پر ہوگا۔ ان کا کہنا تھاکہ تاجر عوام کے ساتھ مہنگائی کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اور ادھار پر لیے گئے مال کی ادائیگیوں سے قاصر ہوگئے ہیں، تاجروں کی اکثریت اپنی بچت شدہ آمدنی استعمال کررہی ہے۔ان کے بقول تاجر نادہندہ ہورہے ہیں اور اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ٹمبر مارکیٹ کے تاجر بجلی کے بلوں کی ادائیگیاں نہیں کریں گے، ٹمبر مارکیٹ کے بعد کراچی کی دیگر مارکیٹس بھی بجلی کے بلوں کی ادائیگیاں نہ کرنے کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت پروٹوکول سسٹم کو ختم کرے، پروٹوکول سسٹم پر بھاری اخراجات کو بند کیا جائے، قوت خرید متاثر ہونے سے تاجروں کی آمدنی 25فیصد، اخراجات 75فیصد ہوگئے، جب کاروبار نہیں ہوگا تو ٹیکسوں کی وصولیاں بھی ناممکن ہوجائیں گی،بجلی پیٹرول کی قیمتوں میں کمی تک تحریک جاری رہے گی،حکومت تاجر کاروزگارغریب کا نوالا اور بچوں کا دودھ چھینے کے بجائے حکومت اشرافیہ کو مفت بجلی و پیٹرول دینا بند کرے،پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ فوری واپس لے، امن و امان کی تباہ کن صورت حال کو کنٹرول کرکے تاجروں کو تحفظ فراہم کرے۔تاجر سے روزگار عوام کی منہ سے روٹی اور معصوم بچوں کے منہ سے دودھ بھی چھین لیا گیا ہے،ہم اپنی تحریک کو ملک گیر سطح پر اگے بڑ ھائیں گے اور جلد ہی مشاورت کے بعد دو روزہ ملک گیر ہڑتال کا اعلان کریںگے۔کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر کراچی سٹی الاننس کے چیرمین حماد پونا والا کی جانب سے اجلاس کے فیصلوں کی تائید کا اعلان کیا گیا۔دوسری جانب نگراں وفاقی حکومت نے بجلی کی فروخت، تقسیم اورٹیرف کا موجودہ نظام ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔بجلی تقسیم کارکمپنیوں کوصوبوں کی ملکیت میں دینے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت نے ملک بھرمیں بجلی کے یکساں ٹیرف ختم کرنے، بجلی کے ریٹ اورسبسڈی کی ذمے داری صوبوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ حیدرآباد اور سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی سندھ کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کوئٹہ الیکٹرک کمپنی بلوچستان کی ملکیت میں دے جائے گی۔دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، گوجرنوالا، فیصل آباد اور ملتان الیکٹرک سپلائی کی ملکیت پنجاب کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ملکیت پنجاب اوروفاق کی مشترکہ طورپرہوگی۔ دستاویز کے مطابق پشاور اورٹرائبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی خیبرپختونخوا کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بجلی تقسیم کارکپمنی کوصوبوں کے حوالے کرنے کا پالیسی فریم ورک تیارکرلیا گیا ہے، بجلی چوری اور عدم وصولیوں کے باعث قومی خزانہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔