مزید خبریں

یکساں قانون کے نفاذ اور جائز اجرت ملنے تک مزدور طبقہ خوشحال نہیں ہوگا

کراچی (رپورٹ: قاضی معاذ سراج) یکساں قانون کے نفاذ اور جائز اجرت ملنے تک مزدور طبقہ خوشحال نہیں ہوگا‘ ٹھیکے داری نظام کوختم کرنا ہوگا ‘مزدوررہنما مفادپرستی ترک کریں‘ مزدوروںکو اپنے ووٹ کی طاقت سے مخلص وباصلاحیت قیادت کو اقتدار میں لانا ہوگا‘عام مزدور کی سوچ کوبدلنا ہوگا‘اسمبلی وسینیٹ میں محنت کشوں کونمائندگی دی جائے۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ، جامعہ کراچی کے استاد حافظ سلمان نوید، FPCCI کی ممبر ڈاکٹر مہزیب خان، کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل لیبر یونین سی بی اے کے جنرل سیکرٹری اور نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی زون کے آرگنائزنگ سیکرٹری رضوان علی، وویمن ورکر الائنس کی صدر رابعہ چوہان، وویمن ورکر الائنس کی ممبر ارم سحر، سیسی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری وسیم جمال اور نجیب احمد ہیوسٹن (ٹیکساس امریکا) نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدوروں کے مسائل کا حقیقی حل کیا ہے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ پاکستان حقیقی آزادی سے آج بھی محروم ہے‘ انگریزوں کے بعد یہ ملک ان کے پروردہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے ایک ٹرائیکا کے شکنجے میں آگیا اور بدترین سرمایہ داری، جاگیرداری نظام جو نسل در نسل قائم ہے، نے سب سے زیادہ مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا۔ حق انجمن سازی معدوم ہوتا جا رہا ہے‘ سماجی تحفظ نہیں ہے‘ ٹھیکیداری نظام نے پنجے گاڑ لیے ہیں‘ بے روزگاری عام ہے‘ مزدور 2 وقت کے کھانے، تعلیم، علاج، چھت اور عزت نفس سے محروم ہے‘ ظلم کے اس نظام کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مزدور اپنے ووٹ کی طاقت کو سمجھے۔ووٹ کو 75 سال سے مسلط مافیا کے خلاف اور نظام مصطفی کے لیے دیانتدار اور خدمت گار قیادت کے حق میں استعمال کرے۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ اس معاملے میں مزدور بھی قصور وار ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 7 کروڑ سے زاید مزدور طبقہ موجود ہے۔ مزدوروں کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اپنے ووٹ کی طاقت سے ایسے حکمران منتخب کریں جو اس کے مسائل کو حل کرنے کا ادراک رکھتے ہوں۔ حافظ سلمان نوید نے کہا کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مزدوروں کا کردار ہمیشہ سے کلیدی رہا ہے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ دن بدن مزدوروں کے حالات بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اس وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ جب پاکستان میں حقیقی طور پر شریعت نافذ کی جائے‘ مزدوروں کے مسائل کا یہی آسان اور حتمی حل ہے۔ ڈاکٹر مہزیب خان نے کہا کہ مزدور طبقہ ہر دور میں پستہ چلا آیا ہے‘ ہمارے ہاں قانون صرف غریبوں کے لیے ہے جب تک ریاست میں قانون کی بالادستی نہیں ہوگی، انصاف آسانی سے نہیں ملے گا، تعلیم عام نہیں ہوگی، مزدور کو اس کی جائز اجرت نہیں ملے گی، مزدور پر ناحق بوجھ کم نہیں ہوگا، مزدور طبقہ خوشحال نہیں ہوگا۔ ریاست یہ قانون بنانے کے ہر کمپنی یا فیکٹری اپنے کام کرنے والے مزدور کو اور اس کے بچوں کو طبی اور تعلیمی سہولت دے۔ ریاست کم قیمت راشن اور رہائش کی سہولت دے۔ مفت کھانے وغیرہ دے کر غریب لوگوں کو بھکاری نہ بنایا جائے۔ قانون سب کے لیے ایک ہوگا تو سب معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ رضوان علی نے کہا کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مزدور حقوق کے لیے مزدور رہنمائوں نے بڑی قربانیاں دیں اور اسی جدوجہد کی پاداش میں پابند سلاسل ہوئے اور اذیتیں برداشت کیں اور انہوں نے مزدور تحریک کو پروان چڑھانے میں دن رات محنت کی‘ وقت کے ساتھ ساتھ اس جدوجہد میں نہ تو وہ خلوص و لگن رہی اور نہ ہی مزدور تحریک نے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزدور تحریک زوال کی طرف گامزن نظر آتی ہے‘ وجہ واضح ہے کہ خدمت کے بجائے مفاد پرستی اور مشترکہ حقوق کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ مزدور نہ تو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کو تیار ہے اور نہ اجتماعی جدوجہد کے لیے نکلنے کو تیار ہے اور نہ ہی مزدور تحریک کو مخلص رہنما میسر ہیں۔ اگرچہ چند مزدور لیڈران اس جدوجہد کے لیے آج بھی آواز بلند کرنے اور مزدور حقوق کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں مگر دوسری طرف ان کی آواز پر لبیک کہنے والے مزدور اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے اور میدان عمل میں نکلنے کے بجائے غلامی اور مفاد پرستی کو ترجیح دینے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سب سے پہلے تو ایسے عوامل تلاش کرنے پڑیں گے جو مزدور جدوجہد کو پروان چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں اور مزدور کو جدوجہد کے لیے نکلنے پر آمادہ کر سکیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب ایسے لیڈران میسر ہوں جو مزدور مسائل کی بنیاد اور ان کے حل پر اپنی خدمات خلوص دل سے پیش کریں اور مزدور تحریک کی صحیح سمت کا تعین کرتے ہوئے ایک مشترکہ جدوجہد کا آغاز کریں اور مزدور تحریک میں ایک نئی روح پھونکیں تاکہ مزدور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہوں اور ایک خوشگوار معاشی زندگی بسر کر سکیں۔ رابعہ چوہان نے کہا کہ آزادی کے 76 سال بعد بھی اس ملک کا مزدور طبقہ ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے‘ پاکستان میں مزدور تب تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام قائم نہ ہوجائے۔ ارم سحر نے کہا کہ اس ملک میں مزدور ہونا ایک قیدی ہونے کے مترداف ہے‘ پاکستان کا مزدور اس وقت تک آزاد نہیں ہوگا جب تک وہ اپنے حق کے لیے خود آواز نہ اٹھائے گا‘ مزدوروں کو اپنی آزادی کے لیے خود جدوجہد کرنی ہوگی اور اس جبری نظام سے لڑنا ہوگا۔ وسیم جمال نے کہا کہ پاکستان میں محنت کش طبقہ بے شمار مسائل کا شکار ہے اور یہ تمام مسائل پاکستان کی سیاسی، جمہوری، اقتصادی و سماجی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں جب تک یہ صحیح نہیں ہوں گے، پاکستان میں محنت کش طبقہ کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ محنت کش طبقے کے مسائل کے حل کے لیے جہاں ایک مضبوط ٹریڈ یونین کی ضرورت ہے وہاں ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی بھی ضرورت ہے جو ایک فلاحی ریاست ہونے کے ناطے اپنے تمام شہریوں کو تعلیم و صحت سمیت بنیادی ضروریات زندگی کو ان کی گھر کی دہلیز تک پہنچا سکے جیسا کہ آج ترقی یافتہ ممالک میں عملی طور پر ہو رہا ہے۔ انفرادی طور پر مزدور کے حالات زار کو بہتر کرنا اس بوسیدہ سسٹم کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ نجیب احمد نے کہا کہ مزدوروں کے مسائل کا حل آمریت اور جمہوریت کی جنگ میں سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے۔ ہر ملک کی ایک مزدور پالیسی ہوتی ہے، صنعتوں کا دار و مدار تربیت یافتہ افرادی قوت پر ہوتا ہے، جب ہمارا محنت کش بیرون ملک کام کرنے جاتا ہے تو اس کا کنٹریکٹ دوسرے غیر ملکی ورک قوانین کے مطابق مقررہ مدت تک ہوتا ہے جہاں ان کے حقوق کی مکمل ضمانت ملتی ہے۔ ہمارے ملک کی بھی مزدور پالیسی ہے مگر اسے ٹھیکے داری نظام کی نظر کردیا گیا ہے، اجرت کا معیار یہ ہے کہ مزدور کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاسکے، مزدور کے حقوق اور قوانین تو موجود ہیں مگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ ایوان میں مزدوروں کی نمائندگی کے لیے مخصوص نشستیں بھی نہیں ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس مزدور ادا کرتے ہیں مگر آج تک کسی حکومت نے مزدوروں کے لیے مزدور سپورٹ پروگرام شروع نہیں کیا، مزدور کسی بھی ملکی صنعت میں خون کا درجہ رکھتے‘ مزدوروں کے حقوق نظر انداز کرنا بدقسمتی ہے۔