مزید خبریں

باَمرِمجبوری نماز پڑھنے میں تاخیر

س: میں سرکاری بسوں کی ورک شاپ میں کاریگر کی حیثیت سے کام کرتا ہوں۔ ہر بس کو چیک کرنا اور چھوٹی بڑی خرابی کو دْور کرنا میری ذمے داری ہے۔ شام کے وقت ڈپو میں آنے والی بسوں کا ہجوم ایک دم بڑھ جاتا ہے۔ اگر میں تھوڑی دیر کے لیے بھی وہاں سے ہٹ جائوں تو بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں اور افسران کی ڈانٹ ڈپٹ الگ۔ اس بنا پر میری عصر اور مغرب کی نمازیں اکثر و بیش تر قضا ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اتنا وقت بھی نہیں نکال سکتا کہ ڈیزل اور پٹرول سے لتھڑے کپڑے بدل کر، صاف کپڑے پہنوں اور نماز ادا کروں، اور پھر واپس کام پر آکر دوبارہ ایمان داری سے ڈیوٹی انجام دے سکوں۔ اس طرح نمازیں قضا ہونے سے میں سخت الجھن میں ہوں۔ دفتر میں کسی دوسرے شعبے میں تبدیلی کی کوشش بھی کی ہے لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ بعض احباب ملازمت ترک کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کی کفالت فرض ہے، لہٰذا انھیں پریشانی میں مبتلا کرنا مناسب نہیں۔ یاد رہے کہ میں نے باقاعدہ انجینیرنگ کی ڈگری لے رکھی ہے، مگر بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ معمولی نوکری کر رہا ہوں۔ مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کیا کروں؟
جواب: عام حالات میں پنج وقتہ نمازوں کی ادایگی ان کے اوقات میں ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے اور رسولؐ کا یہی معمول تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیِ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے‘‘۔ (النساء: 103)
متعدد صحابہ کرامؓ کا بیان ہے کہ رسولؐ نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں ادا کرنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسولؐ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ (کسی دوسرے وقت) میں پڑھی ہو۔ سواے دو نمازوں کے‘‘۔(بخاری)
تاہم، عذر کی صورت میں بعض نمازیں اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر وعصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا جائے اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ۔ رسولؐ سے حجۃ الوداع کے دوران اسی طریقے سے مذکورہ نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’نمازوں کے اوقات عام لوگوں کے لیے پانچ اور اہلِ عذر کے لیے تین ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر‘‘۔ (ھود: 114)
دوسرے سرے پر ظہر وعصر ہے اور رات گزرنے پر مغرب و عشا۔ اسی طرح اس کا ارشاد ہے:
’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل: 78) اس آیت میں ’دلوک‘ میں ظہر وعصر اور ’غسق‘ میں مغرب و عشا شامل ہیں۔ ’’اسی اصول کو اختیار کر کے رسولؐ نے ظہر وعصر اور مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع فرمایا تھا‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)
احناف کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنا) جائز نہیں ہے۔ ہاں، ان کو جمع کرنے کی ظاہری صورت اختیار کی جاسکتی ہے، یعنی ایک نماز اس کے آخر وقت میں اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں پڑھی جائے۔ لیکن دیگر فقہا اس کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک جمع تقویم اور جمع تاخیر دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ دوسری نماز کو مقدم کرکے پہلی نماز کے ساتھ پڑھ لیا جائے، یا پہلی نماز کو مؤخر کر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا جائے۔
عذر میں حالتِ سفر، مرض، طوفانی بارش، خوف یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ احادیث میں ان عذروں کا ذکر آیا ہے، بلکہ سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسولؐ نے ایک موقع پر مدینہ میں رہتے ہوئے ظہروعصر کی نمازیں اور مغرب و عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، جب کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا، نہ بارش ہوئی تھی (دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا نہ آپ حالت ِ سفر میں تھے)۔ سیدنا ابن عباسؓ کے شاگرد نے ان سے دریافت کیا: پھر آپؐ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: آپؐ نے ایسا اس لیے کیا تھا، تاکہ آپ کی اْمت کا کوئی فرد مشقت میں نہ پڑے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی السفر)
حالتِ سفر میں کسی عذر کی بنا پر جمع بین الصلاتین کی اجازت دینے والے فقہا (مثلاً مالکیہ میں سے اشہب، شوافع میں سے ابن المنذر اور ابن سیرین و ابن شبرمہؒ وغیرہ) ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے، یعنی کسی شدید عذر کی بنا پر ہی جمع کیا جائے، ورنہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کیا جائے۔ (نووی، المجموع شرح المہذب)
آپ نے اپنی جو مخصوص صورت بیان کی ہے اس کا شمار عذر میں ہوسکتا ہے لیکن کوشش کیجیے کہ وہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہے۔ اپنے افسران سے کہیے کہ وہ آپ کی علمی قابلیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو پروموشن دیں، یا کوئی دوسرا کام لیں، جس میں آپ کی ایسی شدید مصروفیت باقی نہ رہے۔ ورک شاپ میں آپ سے متعلق جو کام ہے، اس کی انجام دہی کے لیے آپ کے علاوہ دوسرے افراد بھی ہوں گے۔ آخر آپ کی بیماری یا رخصت کے دنوں میں ورکشاپ میں تالا نہ لگ جاتا ہوگا اور بسیں چلنی بند نہ ہوجاتی ہوں گی۔ ان افراد سے تعاون لیجیے۔ ان کے بعض کام آپ کردیجیے تاکہ وہ آپ کے کچھ کام اپنے ذمے لے کر آپ کو نمازوں کی ادایگی کے لیے مہلت دے دیا کریں۔ دین میں نماز کی اہمیت اور اس کے مقام سے آپ بخوبی واقف ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ حتی الامکان آپ کی تمام نمازیں وقت پر ادا ہوں۔