مزید خبریں

انسانی اسمگلنگ المیہ ہے، مسرت خلیل کا سعودی ریڈیو کو انٹر ویو

 جولائی کو انسانی اسمگلنگ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر سعودی عرب کے معروف صحافی ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان نے30 جسارت کے بیوروچیف سید مسرت خلیل سے انٹرویو کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
سوال۔ انسانی اسمگلنگ کیا ہے؟
جواب :انسانی اسمگلنگ سے مراد لوگوں کو دھوکہ دہی یا فریب کے ذریعہ زبردستی کسی جگہ بھرتی کرنا ، ایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل کرنا۔ منافع کے لیے غیر قانونی طریقہ سے ان کا استحصال کرنا ہے۔ ہر سال، دنیا بھر میں لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو اسمگل کیا جاتا ہے – ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر ہر سال تقریباً 1,000,000 لوگوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ اور 20,000 سے 50,000 کے درمیان امریکہ اسمگل کیے جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں متاثرین کسی بھی عمر، نسل، جنس یا قومیت کا ہو سکتا ہے۔ سمگلر متاثرین کو اسمگلنگ کے لئے تشدد ، ہیراپیری اور اچھی تنخواہ والی نوکریوں کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ متاثرین کو ان کے اسمگلروں کا خوف، اور/یا قانون نافذ کرنے والوں کا خوف اکثر متاثرین کو مدد طلب کرنے سے روکتا ہے، جس سے انسانی اسمگلنگ ایک پوشیدہ جرم بن جاتی ہے۔
سوال۔ انسانی اسمگلنگ کی شکلیں اور صورتیں مثال دے کر بتائے؟
جواب:انسانی سمگلنگ کی کئی شکلیں ہیں۔ انسانی سمگلر اپنے متاثرین کو بھرتی کرنے کے لیے بہت سے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں، جس میں طاقت یا نفسیاتی ہیرا پھیری دونوں شامل ہیں۔ مجرم جسمانی طاقت، دھمکیوں یا نفسیاتی دباؤ کے ذریعے اپنا شکار حاصل کرتے ہیں۔
ان میں جنسی اور مہمان نوازی کی صنعتوں، گھریلو ملازمین کے طور پر یا جبری شادیوں میں استحصال شامل ہے۔ متاثرین کو فیکٹریوں، بھکاریوں، گھریلو غلامی، تعمیراتی جگہوں، یا زرعی شعبے میں بغیر تنخواہ یا ناکافی تنخواہ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تشدد کے خوف اور اکثر غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ (یو این) انسانی اسمگلنگ کو تین زمروں میں تقسیم کرتا ہے- جنسی اسمگلنگ، مزدوروں کی اسمگلنگ، اور انسانی جسم کے اعضاء کی اسمگلنگ دھوکہ دہی، یا جبر کے ذریعے۔
سوال: انسانی اسمگلنگ کے اہم اسباب کیا ہیں ؟
جواب: اقوام متحدہ انسانی اسمگلنگ کے10 اہم اساب بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
1غربت، تعلیم کی کمی، سستی مزدوری / جنس کی مانگ، انسانی حقوق کے تحفظ کا فقدان، جائز معاشی مواقع کی کمی، ثقافتی عوامل، تنازعات اور قدرتی آفات، محفوظ نقل مکانی کے اختیارات کا فقدان، دھوکہ دہی اور دھمکی اور منافع خوری۔
سوال: سعودی عرب میں کس قسم کی انسانی اسمگلنگ کے انسداد پر زیادہ زور دیا جاتا ہے؟
جواب: سعودی عرب کی حکومت اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے پوری طرح کامیاب تو نہین لیکن اس کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ 2009 ٍکے انسداد اسمگلنگ قانون نے جنسی اسمگلنگ اور مزدوروں کی اسمگلنگ کو جرم قرار دیا اور 15 سال تک قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں تجویز کیں۔ سنگین حالات میں جرمانے میں اضافہ، بشمول ایک منظم مجرمانہ گروہ یا کسی عورت، بچے، یا معذور شخص کے خلاف اسمگلنگ کا ارتکاب۔ ۔ حکومت غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملات سے نمٹنے کے لیے پولیس افسران کو تربیت فراہم کرتی ہے۔
سوال: کہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ روکنے کے لئے اس آفت سے دوبار ہونے والوں کے تجربات بہت اہم ہوتے ہیں،اس حوالے سے آپ کے ،علم، یا مشاہدہ یا سننے میں جو آیاہو اس کے بارے میں بتائے؟
جواب : ذاتی طور پر تو ایسے کسی شخص سے واسطہ نہیں پڑا، تاہم میں نے ایسے بہت سارے لوگوں کوسناہے جو شاندار مستقبل کے چکر میں اقامہ فروشوں کے جھانسے میں آۓاور انہیں خون کے آنسو روتے دیکھا گیا ، انسانی اسمگلروں کے خلاف اس طرح کی کہانیاں کہ انہوں نے سمندر،صحرااور انجانے ملک ، یا مقام پر چھڑدیا، یا منشیات کے بیگ دے کر پھنسوادیا وغیرہ ،وغیرہ۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک متاثرہ کا جن کے خاندان کے سات میں سے تین افراد غیر روایتی راستوں سے جانے کی کوشش کے دوران بھوک و پیاس کی کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے پیارے اس اذیت ناک انجام سے دوچار ہوں گے تو ہم ان کو کبھی بھی نہ جانے دیتے۔
سوال:۔ سعودی عرب میں انسانی اسمگلنگ کا قدر سنگین جرم ہے؟ اس کی سزاکیا ہے؟
جواب: حکومت نے خبردار کیا ہے کہ جو کوئی بھی سعودی عرب میں انسداد اسمگلنگ ان پرسنز قانون میں درج جرائم میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے گا اسے متعدد سزائیں دی جائیں گی۔ افسران نے تصدیق کی کہ سعودی عرب میں انسانی اسمگلنگ کی سزا 5 سال تک قید اور 200,000 ریال تک جرمانہ ہے۔
سوال: سعودی عرب نے انسانی اسمگلنگ روکنے میں کیا کامیابی حاصل کی؟
جواب:سعودی عرب نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں اپنی کوششوں کو بڑھایا ہے اور اس طرح کے جرائم کے خلاف تعزیری اقدامات کو مضبوط کیا ہے، اس کے علاوہ ایسے جرائم کی تحقیقات اور ان کی پیروی کے لیے خصوصی پراسیکیوشن دفاتر قائم کیے ہیں”۔
سوال: پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا منظرنامہ کیا ہے؟
جواب:پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا محرک پیسہ کمانا ہے۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا منظرنامہ کچھ اسطرح ہے کہ جو افراد پہلے ہی اسپین، جرمنی، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ ان یورپی ممالک میں پہلے سے منتقل ہو چکے ہیں اب ان کی زندگی میں کافی حد تک خوشحالی آگئی ہے۔ وہ شادی بیاہ پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرتے ہیں جبکہ گاؤں میں انہوں نے کوٹھیاں بھی بنا لی ہیں. اس خوشحالی کو دیکھ کر گاؤں کے بہت سارے نوجوان بضد ہیں کہ انہیں بھی ہر صورت یورپ جانا ہے۔ یورپ داخل ہونے کے لیے پُر خطر سمندری راستوں کا انتخاب کرنے والوں کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ان کے عزیز ایک بہتر زندگی کی تلاش میں تھے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اداروں کے درمیان تعاون اور رابطے کا فقدان اور حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اس طرح کے سانحات کو بار بار جنم دیتا ہے۔
سوال۔ سعودی عرب اور پاکستان اس سلسلے مسائل مل جل کرکس طرح حل کرسکتے ہیں؟
جواب:انسانی سمگلنگ ایک سنگین جرم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہر سال ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے اپنے ہی ملکوں اور بیرون ملک سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کا تقریباً ہر ملک اسمگلنگ سے متاثر ہے، چاہے وہ اصل ملک ہو، ٹرانزٹ ہو یا متاثرین کی منزل۔ رضاکارانہ طور پر اپنی کمیونٹی میں انسداد اسمگلنگ کی کوششوں کی حمایت کریں۔ انسانی سمگلنگ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کریں، والدین اور دیکھ بھال کرنے والے: جانیں کہ انسانی اسمگلر کس طرح اکثر نوجوانوں کو نشانہ بناتے اور بھرتی کرتے ہیں۔

سوال: تارکین کا کیا کردار ہے، اس حوالے سے؟
جواب: تارکین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو اس سلسلے میں شعوردیں ، انھیں ( آزاد ویزے) کی حقیقت بتائیں، انھیں انسانی اسمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی کا حوصلہ دیں، انھیں انسانی اسمگلروں کے بارے میں معلومات حاصل پر اکسائیں، انھیں سعودی عرب میں اس حوالے سے دو چار ہونے پر سعودی میں قانونی معاونت فراہم کرنے والے اداروں سے رجوع کرنے کی رغبت دلائیں۔