مزید خبریں

ماہ محرم الحرام اور یوم عاشور

یوم عاشور زمانۂ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی۔ رسول اللہؐ کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے۔ اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورا کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورا کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپؐ نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں۔ (بخاری) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراءؐ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے یوم عاشور کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں، اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں؛ بلکہ روزے داروں کی طرح رہیں۔ بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورا کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی۔ (بخاری، مسلم) لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہؐ کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزے کا اہتمام فرماتے تھے، جیسا کہ حدیث آگے آرہی ہے۔ (معارف الحدیث)
یومِ عاشور کی فضیلت
نبی کریمؐ سے اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں۔ سیدنا ابن عباسؓ ہیں: میں نے نبی کریمؐ کوکسی فضیلت والے دن کے روزے کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشور کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔ (بخاری، مسلم)
مطلب یہ ہے کہ ابن عباسؓ نے آپؐ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشور کے روزے کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزے کا نہیں کرتے تھے۔
سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: روزے کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشور کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب)
سیدنا ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشور کے دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (الترغیب)
ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشور بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
یوم عاشور کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے:
1۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ سیدنا علیؓ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ میں ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینے کے روزے رکھوں؟ تو سیدنا علیؓ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ (ترمذی)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔ (ترمذی)
اسی طرح ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزے کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ (الترغیب والترہیب)
2۔مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ’’شھرْ اللہ‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے، تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔
3۔تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ’’اشھر حرم‘‘ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: (1) ذی قعدہ (2) ذی الحجہ (3) محرم الحرام (4) رجب۔ (بخاری، مسلم)
4۔چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتدا اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ ’’ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم)
یوم عاشور میں کرنے کے کام
احادیث طیبہ سے یومِ عاشور میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں: (1) روزہ: جیسا کہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریمؐ نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشور کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبرؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشور کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہؐ نے یوم عاشور کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہؐ کی وفات ہوگئی۔ (مسلم)

اہم فائدہ
بعض فقہا نے لکھا ہے کہ صرف یوم عاشور کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا ہے کہ عاشورا کے روزے کی تین شکلیں ہیں: (1) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (2) نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، تو شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہا نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزے کو آپ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (معارف السنن)
اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اور فراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشور کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب)
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ مہینہ اور دن افضل ہے تو اس میں نیک اعمال بہت زیادہ کرنے چاہییں، نکاح وغیرہ خوشی کی تقریبات بھی اس میں زیادہ کرنی چاہییں، اس میں شادی کرنے سے برکت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اس مہینے میں شادی کو منحوس سمجھنا غلط ہے، جس سے پرہیز لازم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاکؐ کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ آمین ثم آمین