مزید خبریں

حُوروں کی تعداد

اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ یہاں انسان جیسے کام کریں گے، ان کا بدلہ مرنے کے بعد برپا ہونے والی دوسری دنیا میں پائیں گے، جسے آخرت کہا گیا ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کریں گے، وہ ان کا بدلہ آخرت میں جنّت کی شکل میں پائیں گے، جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی۔ اور جو لوگ یہاں بْرے کام کریں گے انھیں آخرت میں ان کا بدلہ جہنم کی شکل میں ملے گا ، جس میں ہر طرح کی تکلیف دہ چیزیں ہوں گی۔
قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سزاؤں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، لیکن وہ محض تقریبِ فہم کے لیے ہے۔ کوئی شخص ان کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا، اس لیے کہ انسانی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنھیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا، نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ وہ کسی کے حاشیۂ خیال میں آئی ہوں گی۔ (بخاری، مسلم)
قرآن و حدیث میں حْوروں کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے مراد خوب صورت عورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان مردوں کو جنّت میں بھی ان سے نوازے گا۔ حْوروں کا بس یہ تصور ہے ، جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
قرآن میں حْوروں کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں۔ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو جنّت میں دو حْوریں ملیں گی۔ (بخاری، مسلم) محدثین نے لکھا ہے کہ جیسے قرآن میں دو جنتوں اور دو چشموں کا تذکرہ ہے، اسی طرح حدیث میں دو بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک یہ 72 حْوروں کا تعلق ہے، اس کا تذکرہ کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ مشہور محدثین نے یہ بات بڑی صراحت سے بیان کی ہے۔ مثلاً علامہ ابن تیمیہ (مجموع الفتاویٰ) علامہ ابن حجر (فتح الباری) وغیرہ۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب: حاد الارواح الٰی بلاد الافراح میں جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، اور علامہ ابن قیم نے صراحت کی ہے کہ صحیح احادیث میں دو بیویوں سے زیادہ کا تذکرہ نہیں ہے۔
یہ بات درست ہے کہ بہت سی احادیث و روایات میں 72 حْوروں کا ذکر ہے۔ یہی نہیں، بلکہ بعض احادیث میں سو، پانچ سو، چار ہزار، بلکہ آٹھ ہزار حْوروں کا ذکر ہے، لیکن یہ تمام احادیث ضعیف، بلکہ ان میں بہت سی موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ اسلام دشمن لوگ قرآن مجید میں تو تحریف نہ کرسکے اور اس کا ایک حرف بھی بدلنے پر قادر نہ ہوسکے، تو انھوں نے بے بنیاد اور من گھڑت حدیثیں پھیلادیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے امت کے محدثین اور ناقدینِ حدیث کو، جنھوں نے احادیث میں سے صحیح، ضعیف اور من گھڑت کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض علما اب بھی اپنے خطبات اور وعظوں میں اعمال کے فضائل بیان کرتے ہوئے ان کے بدلے میں ملنے والی جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، تو حْوروں کے حْسن و جمال، ان کی ہیئت، قد و قامت اور دوسری چیزوں کا تذکرہ بہت مزہ لے لے کر کرتے ہیں۔ ان واعظین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضعیف اور موضوع حدیثیں پیش کرکے وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں، بلکہ اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔