مزید خبریں

پیپلز پارٹی نے زبردستی کراچی پر اپنا میئر مسلط کرکے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)پیپلز پارٹی نے زبردستی کراچی پر اپنا میئر مسلط کرکے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا‘دھاندلی سے حافظ نعیم الرحمن کو میئرشپ سے محروم کرکے شہرکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی‘ سندھ حکومت نے ناجائز اختیارات کا استعمال کرکے 1971ء کی یاد تازہ کردی‘ اقلیتی نمبر کو اکثریت میں بدلنا زرداری کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ان خیالات اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، متحدہ لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری مختار اعوان،ریلوے پریم یونین کے مرکزی چیف آرگنائزر اور نیشنل لیبر فیڈریشن کے رہنما خالد محمود چودھری، پنجاب یونیورسٹی ایڈمنسٹریٹو اینڈ ٹیکنیکل اسٹاف یونین کے سیکرٹری جنرل طیب اعجاز خان سواتی، متحدہ لیبر فیڈریشن کراچی کے سابق رہنما، سینئر صحافی شاہد غزالی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان اور پی آئی اے کے سابق مزدور رہنما عبیداللہ، EPWA لیڈیز ونگ کی صدر ملکہ افروز روہیلہ،جامعہ کراچی کے استاد حافظ سلمان نوید، وفا تنظیم سندھ کے صدر احمد سلمان شاہین اور پاکستان اسٹیل کے سابق رہنما خالد خورشید نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ پیپلزپارٹی کا زبردستی مرتضیٰ وہاب کو کراچی کامیئر منتخب کرانا کیا جمہوریت ہے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ کراچی کے عوامی مینڈیٹ پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا ڈاکا کراچی پر اندرون سندھ کی طرح وڈیرہ شاہی کا تسلط قائم کرنا ہے‘ حافظ نعیم الرحمن کا راستہ روک کر کراچی کی تعمیرو ترقی کا راستہ روکا گیا ہے۔ مختار اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جمہوریت تو ہم 1970ء میں دیکھ چکے ہیں‘کراچی کے موجودہ میئر کا انتخاب جمہوریت کا قتل عام ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ عام انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیادوں پر کرائے جائیں۔ خالد محمود چودھری نے کہا کہ حکمران جماعتیں جمہوریت کا نام لے کر جمہوریت کے متصادم طریقہ کار اختیار کرتی ہیں‘ پیپلز پارٹی تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مطلوبہ نمبر پورے نہیں کرسکی‘ پیپلز پارٹی زبردستی طاقت کے ذریعے کراچی پر اپنا میئر مسلط کیا ہے۔ طیب اعجاز خان سواتی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے زبردستی کراچی میں اپنا میئر منتخب کراکر جمہوریت کا جنازہ نکالا ہے۔ بغیر اقتدار کے حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم نے اہلیان کراچی کی خدمت کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گئے۔ شاہد غزالی نے کہا کہ جمہوریت کے لفظی معنی اکثریت کی رائے ہے‘ ایوان میں اگر کوئی جماعت یا مختلف جماعتوں کا اتحاد 50 فیصد سے زاید کی اکثریت ثابت کر دے تو وہ ایوان اس کا ہو جاتا ہے‘ متعلقہ عہدہ یا حکومت اس کی ہوجاتی ہے۔کراچی کے میئر کے لیے جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے اراکین کے ساتھ مل کر اکثریت ثابت کردی تھی لیکن پیپلز پارٹی نے طاقت کے زور پر اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ جمہوریت کے دعویدار جمہوریت کا کان مروڑ کر اس کو اپنے تابع بنا لیتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی نے عملاً کر کے دکھا دیا۔ عبیداللہ نے کہا کہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کا اصل چہرہ یہ ہے کہ جہاں یہ خود ہار رہے ہوتے ہے وہاں ان کی جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔ وہاں پھر یہ مینڈیٹ پر قبضہ کرتے ہیں،غیر جمہوری و غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں،الیکشن کو یرغمال بناتے ہیں۔ ملکہ افروز روہیلہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کا خون کیا ہے۔ سول مارشل لا کا تاج بھی اسی پارٹی کے لیڈر کے سر بندھا ہے۔ کراچی میں میئر کے انتخاب میں اقلیتی نمبر کو اکثریت میں بدلنا اس جماعت کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔حافظ سلمان نوید نے کہا کہ حکومت نے جمہوری عمل پر ایک اور بجلی گرادی‘ سندھ حکومت نے1971ء کی یاد تازہ کردی۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے اس کا ووٹ چھینے جانے سے نہ صرف اس سیاسی جماعت پر بُرا اثر پڑتا ہے بلکہ عوام میں بھی حکومت وقت کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افسوسناک تاریخ دہرانے کے بجائے پیپلز پارٹی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ احمد سلمان شاہین نے کہا کہ 3 لاکھ ووٹ رکھنے والی پیپلز پارٹی نے 9 لاکھ ووٹ کی حامل اتحادی قوت کو دھونس دھاندلی اور حکومتی اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے میئر شپ سے محروم کردیا ۔ خالد خورشید نے کہا کہ جس پارٹی میں خود جمہوریت نہ ہو اور موروثی سیاست کا بول بالا ہو اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی ایک نام نہاد جمہوری پارٹی ہے جہاں کرپشن کا بول بالا ہے، اس کی قیادت نااہل افراد پر مشتمل ہے۔