مزید خبریں

وفاقی و صوبائی بجٹ فراڈ ہے،اشرافیہ کو مزید مراعات دیں اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کی

کراچی(رپورٹ: قاضی سراج)وفاقی وصوبائی بجٹ فراڈ ہے ‘ اشرافیہ کومزید مراعات دیں اور عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کی‘ مہنگائی میں کمی کیلیے اقدامات نہیں کیے گئے ،انتظامی اخراجات میں اضافہ کیا ‘صرف سرکاری ملازمین کونوازا گیا‘بجٹ نے مزدوروں کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا‘ جو ملک دفاعی بجٹ کے لیے خطیر رقم رکھے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کام کرے گا۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے ایسوسی ایٹ سیکرٹری جنرل اور پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستانCBAکے سینئر نائب صدر وحید حیدرشاہ، نیشنل لیبرفیڈریشن کے رہنما اور ریلوے پریم یونین کے مرکزی چیف آرگنائزر خالد محمود چودھری، پاکستان فیڈریشن آف کیمیکل، انرجی، مائنز اینڈ جنرل ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری عمران علی، نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے آرگنائزنگ سیکرٹری اور کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل لیبر یونین کے جنرل سیکرٹری رضوان علی، نیشنل لیبر فیڈریشن حیدر آباد کے سینئر نائب صدر، پریم یونین سی بی اے حیدرآباد زون کے صدر مبین راجپوت، راحیلہ خان ایڈووکیٹ، مزدور مددگار آفس لانڈھی کے رہنما مرزا مقصود، آل پاکستان فیڈریشن آف یونائیٹڈ ٹریڈ یونینز کے جنرل سیکرٹری ضیا سید ، متحدہ لیبر فیڈریشن خیبرپختونخوا کے صدر محمد اقبال، سابق مزدور رہنما، سیمنس ایمپلائز یونین ہیوسٹن ٹیکساس امریکا کے محنت کش نجیب احمد، ویمن ورکرز الائنس کی ممبر ارم سحر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر اینڈ کامرس اینڈ انڈسٹریز کی رہنما مہیزیب خان، ویمن ورکرز الائنس کی صدر رابعہ چوہان، آل پاکستان فیڈریشن آف یونائٹیڈ ٹریڈ یونینز کے رہنما عبدالحمید کھرل اور آئی سی آئی کے سابق مزدور رہنما افضل جسکانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’وفاقی وصوبائی بجٹ مزدوروں کے لیے کیسا ہے؟ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ بجٹ ایک دھوکا اور فراڈ ہے‘ بدترین معاشی حالات کا تقاضا تھا کہ حکومت اپنے انتظامی اخراجات کم کرتی لیکن ان میں دوگنا سے زیادہ اضافہ کردیا۔ اشرافیہ کے لیے مراعات میں اضافہ اور غریب عوام پر جی ایس ٹی کی صورت میں ٹیکسوں کی بھر مار کی گئی ہے۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ مہنگائی 3 گنا بڑھ گئی ہے‘ بجٹ میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کا اعلان نہیں کیا گیا‘ اگر ’’کم از کم اجرت‘‘ میں اضافے کا اعلان ہوا بھی ہے تو پہلے کون سا اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے جو اب ہو جائے گا‘ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم حکومتی ادارے پہلے کون سے محنت کش طبقے کے لیے کوئی کارخیر سر انجام دے رہے ہیں جو اب کریںگے۔ پہلے کی طرح اس بجٹ میں بھی مزدور طبقے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ خالد محمود چودھری نے کہا ہے کہ بجٹ میں مزدور کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، گزشتہ سال کے مقابلے میں مہنگائی اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں300 فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بجٹ میں امیروں کو مراعات دی گئی ہیں اور غریب مزدور کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کا انتظام کردیا گیا ہے۔ عمران علی نے کہا کہ جو ملک دفاعی بجٹ کے لیے خطیر رقم رکھے وہ اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کام کرے گا۔ وفاقی و صوبائی بجٹ کی وجہ سے مزدوروں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ رضوان علی نے کہا کہ حکمرانوں نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ہی خوش کرنے کی کوشش کی ہے‘ صنعتی اداروں کے مزدوروں کی کم از کم اجرت مہنگائی کے تناسب سے نہیں بڑھائی۔ مالکان کم از کم اجرت 25 ہزار روپے بھی ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے مزدوروں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ مبین راجپوت نے ایک بیان میں کہا کہ مہنگائی50 سے 60 فیصد تک بڑھی ہے اور مڈل کلاس طبقہ اس مہنگائی میں پس کر رہ گیا ہے‘ دوسری طرف 2,2 مہینے تنخواہیں نہیں ملتی اور پنشنرز کی 17.5 فیصد پنشن بڑھائی گئی، کیا پنشنرز کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ راحیلہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے یوٹیلیٹی بلوں پر عاید کردہ ٹیکس ختم کرنے کے لیے اقدمات نہیں کیے‘ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں کٹوتی بجٹ کا حصہ ہے۔ اس صورتحال میں صاف ظاہر ہے کہ ایک عام مزدور کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ حکومت کو تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مزدور دوست بجٹ بناتی مگر حکومت نے مزدور دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مرزا مقصود نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں مزدوروں اور کسانوں کی نمائندگی موجود ہی نہ ہو تو ان میں پیش کردہ بجٹ کیسے مزدوروں کے مفاد میں ہو سکتے ہیں۔ ریاست پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعے ملک میں مساوات کے بجائے ایک حکمراں طبقہ کو مسلسل نواز رہی ہے۔ اس عمل میں عالمی مالیاتی ادارے بھی پوری طرح شامل ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں مزدوروں،کسانوں، خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی رکھی جائے۔ ضیا سید نے کہا کہ بجٹ کا سب سے زیادہ اثر پرائیویٹ سیکٹر کے مزدوروں پر پڑتا ہے‘ ملک بھر میں وزارت محنت و افرادی قوت پرائیویٹ سیکٹر میں کم از کم اجرت پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنا سکی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کی رٹ قائم نہیں ہے جس کی وجہ کرپشن اور حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی ہے۔ محمد اقبال نے کہا کہ کرپشن نے اس ملک کا یہ حال کردیا ہے کہ غریب ایک وقت کی روٹی کھانے کو ترس رہا ہے‘ کرپشن کے خلاف سخت قانون سازی کی جائے اور کرپشن کرنے والوں کا بے رحمانہ احتساب کیا جائے اس وقت غریب اور محنت کش عوام کو مزید قربانی کا بکرا بنانا غلط ہے کیونکہ عوام پہلے سے خالی ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئے ہیں‘ گوشت نام کی کوئی بوٹی ان میں نہ رہی ۔ نجیب احمدنے کہا کہ ہمیشہ کی طرح یہ بجٹ بھی مزدوروں کے لیے مہنگائی اور ٹیکس میں اضافے کی نوید پیش کر رہا ہے‘ ٹیکس نیٹ میں اشرافیہ کو آزادی حاصل ہے، مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ عوام اور مزدوروں پر یہ کہہ کر ڈال دیا جاتا ہے، یہ بجٹ عوام دوست ہے سیاسی بنیاد پر کرپٹ عناصر انکم سپورٹ پروگرام کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں مگر حکمراں مزدور سپورٹ پروگرام پیش نہیں کرتے‘ مزدوروں کو مہنگائی اور ٹیکس کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ارم سحر نے کہا کہ مزدور تو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ سے دبا ہوا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومت کے بجٹ نے مزدوروں کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ مہیزیب خان نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے مزدور طبقہ نان شبینہ کا محتاج ہوگیا۔ بجٹ سے مزدوروں کو کچھ بھی نہیں ملا سوائے مہنگائی کے۔ رابعہ چوہان نے کہا کہ مزدوروں کو آج بھی 15 ہزار روپے تنخواہ مل رہی ہے۔ موجودہ بجٹ نے مزدوروں کی کوئی داد رسی نہیں کی۔ عبدالحمید کھرل نے کہا کہ بجٹ مزدور دشمن اقدامات پر مبنی ہے اس میں مزدور کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا‘ آج بھی مزدور10، 15ہزار روپے میں 12 گھنٹے کام کر رہا ہے۔ افضل جسکانی نے کہا کہ پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے والے مزدور ہمیشہ کی طرح نظر انداز کردیے گئے۔ سرکار ٹیکس تو مزدورں سے وصول کرتی ہے، مزدورں سے ٹیکس لے کر سرکاری ملازمین کو ہر بجٹ میں نوازا جاتا ہے‘ آج تک نہ کسی وزیر محنت نے مزدوروں کے حقوق کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔