مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

انشورنس
انشورنس کمپنیاں جو روپیہ پریمیم کی شکل میں وصول کرتی ہیں اس میں بہت بڑے حصے کو سودی کاموں میں لگاکر فائدہ حاصل کرتی ہیں اوراس ناجائز کاروبار میں وہ لوگ آپ سے آپ حصہ دار بن جاتے ہیں جو کسی نہ کسی مشکل میں اپنے آپ کو یا اپنی کسی چیزکو ان کے پاس انشور کراتے ہیں۔ موت یا حوادث یا نقصان کی صورت میں جو رقم دینے کی ذمے داری یہ کمپنیاں اپنے ذمے لیتی ہیں اس کے اندر قمار کا اصول پایا جاتا ہے۔
آدمی کے مرجانے کی صورت میں جو رقم ادا کی جاتی ہے اسلامی شریعت کی رو سے اس کی حیثیت سے مرنے والے کے ترکے کی ہے جسے شرعی وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ مگر یہ رقم ترکے کی حیثیت میں تقسیم نہیں کی جاتی بلکہ اس شخص کو مل جاتی ہے جن کے لیے پالیسی ہولڈر نے وصیت کی ہو۔ حالانکہ وارث کے حق میں شرعاً وصیت ہی نہیں کی جاسکتی‘‘۔ (رسائل ومسائل)
٭…٭…٭
انعامی بانڈز‎
انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اس نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے، اور ان پر سود ادا کرتی ہے… اس میں سود بھی ہے اور روحِ قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اولاً اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرضے کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً جس کے نام پر انعام نکلتا ہے اسے در اصل وہ سود اکٹھا ہوکر ملتا ہے جوعام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا تھا۔ ثالثاً جو شخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرد قرض نہیں دیتا۔ بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد انعام ملے گا۔ اس لیے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔
رابعاً جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بصورتِ انعام دی جاتی ہے اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اس طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام انعامات نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کومل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقم قرض نہیں ماری جاتی۔ بلکہ صرف وہ سود جو سودی کا روبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر مدد کرتا ہے، انہیں نہیں ملتا۔ بلکہ قرعہ کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سود ایک یا چند آدمیوں تک اس کے پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینہ قمار تو نہیں ہے، مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے‘‘۔ (رسائل ومسائل)
٭…٭…٭
نظام زکوٰۃ
اسلام ایک طرف انسان پر فرداً فرداً یہ اخلاقی فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے جس فرد بشر کو بھی مدد کا محتاج پائے اس کی مدد اپنی حد استطاعت تک ضرور کرے… اور اس پر مزید یہ کہ وہ پورے معاشرے اور ریاست پر یہ ذمے داری عائد کرتا ہے کہ اس کے حدود عمل کے اندر رہنے والا کوئی شخص کم سے کم ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ معاشرے کے اندر جو لوگ بے روزگار ہوجائیں، یا کسی عارضی سبب سے ناقابل کار ہوں، یا کسی حادثے اور آفت کے شکار ہوں، ان سب کو سہارا دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔ وہ بچے جن کا کوئی سر پرست نہیں ان کی سرپرستی کرنا ریاست کا فرض ہے۔ حد یہ ہے کہ جو شخص قرضدار ہو اور اپنا فرض ادا نہ کرسکے اس کا قرض بھی بالآخر ریاست پر جا پڑتا ہے۔ یہ سوشل انشورنس کی ایک وسیع ترین اسکیم ہے۔
(اسلام اورجدید معاشی نظریات)