مزید خبریں

تمام فیڈر یشنز ملکر مزدوروں کی مخصوص پارلیمانی نشستوں کیلیے آواز اٹھائیں

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)تمام فیڈریشنز ملکر مزدوروں کی مخصوص پارلیمانی نشستوں کے لیے آواز اٹھائیں‘ مزدور اپنے ووٹ کی طاقت سے انقلاب برپا کریں‘ مخصوص نشستوں کا کوئی فائدہ نہیں‘ پیپلز پارٹی مزدوروں کے نام پر سیاست کرتی ہے اور انہی کا استحصال بھی کرتی ہے‘ قانون سازی کرتے وقت مزدوروں کی رائے کا بھی احترام کیا جائے۔ان خیالات کااظہارنیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی ،پی آئی اے ایکشن کمیٹی کے صدر محمد عارف خان روہیلہ ،نیسلے پاکستان سی بی اے ایمپلائز یونین کے صدر جمشید اقبال سیال ، عورت فائونڈیشن کی رہنما ملکہ خان،پرل کانٹی نینٹل ہوٹلز نیشنل لیبر یونین کے رہنما احمد علی عباسی،پاکستان اسٹیل کے رہنما خالد خورشید اور باغبان ایمپلائز یونین سی بی اے ملتان کے صدر عاقل قریشی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیاپارلیمنٹ میں مزدوروں کے لیے نشستیں مختص ہونی چاہئیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں مزدوروں کی نشستیں مختص کرنے سے مزدوروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ پاکستان کے7 کروڑ مزدور اپنے ووٹ کی طاقت سے انقلاب برپا کرسکتے ہیں بس وہ طے کر لیں کہ ملک پر 75 سال سے مسلط جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ووٹ نہیں دینا اور اپنے جیسے نمائندوں کو جو دیانتدار اور خدمت گار ہیں اور اسلامی انقلاب کے علمبردار دار ہیں ان کو منتخب کرنا ہے۔ جمشید اقبال سیال نے کہا کہ 8 کروڑ مزدور ہیں لیکن بدقسمتی سے صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی
اور سینیٹ میں ہماری نمائندگی نہیں ہے جس کی وجہ سے قانون سازی کرتے وقت مزدوروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے خلاف ہی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ تمام فیڈریشنز مل کر مزدوروں کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ عارف خان روہیلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں مزدوروں کی سیٹیں لازماً ہونی چاہیے‘ جب ہر شعبہ جات سے مخصوص نشستیں مقرر ہیں تو یہ ستم صرف مزدوروں پر ہی کیوں ہے کہ انہیں ان کے حق سے محروم رکھا جائے۔ یہ کام اب تک پیپلز پارٹی کو کردینا چاہیے تھا کیونکہ یہ مزدوروں کے نام پر سیاست کرتی ہے لیکن پی پی نے ہی سب سے زیادہ استحصال مزدوروں کا کیا ہے۔ موجود حکومت سے تو یہ امید نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کر کے اسمبلی میں مزدوروں کو نمائندگی دے‘ ہاں آنے والی حکومت یا انتخابات سے پہلے مزدور ضرور سیاسی جماعتوں کے سامنے اپنا یہ مطالبہ رکھ سکتے ہیں۔ ملکہ خان نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں لیبر کی ایک سیٹ رکھی گئی تھی۔ لو گ اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ سٹیزن کمیونٹی بورڈ کے ذریعے لیبر کونسلر بہت ترقیاتی کام کرواسکتے تھے۔ اس سسٹم کو لانے کے لیے بھی سماجی تنظیموں نے 8 سال تک جدوجہد کی جس طرح خواتین اور اقلیتوں کی سیٹیں ہوتی ہیں اسی طرح مزدوروں کے لیے بھی سیٹ ہونی چاہیے۔ ہم سب کو مل کر اس کے لیے اپنی آواز بلند کرنا چاہیے۔ ٹریڈ یونین اور مزدوروں کی تنظیموں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہیں۔ احمد علی عباسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں سرمایہ دار، وڈیرہ، چودھری، بیوروکریٹ کب برداشت کرے گا کہ گندے کپڑے پہنے ہوئے پسینے میں شرابور ایک عام مزدو ان کے پاس بیٹھے جس روز ایک مزدور اور بڑا آدمی ایک ساتھ بیٹھ گیا اس روز مزدور ہی کی نہیں ملک کی تقدیر بھی سنور جائے گی۔ خالد خورشید نے کہا کہ پارلیمنٹ میں مزدوروں کی نمائندگی انتہائی ضروری ہے تاکہ مزدروں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے وقت ان کی رائے کی روشنی میں قانون سازی کی جاسکے۔ عاقل قریشی نے کہا کہ مزدوروں کی نمائندگی نہ صرف اسمبلی میں ہونی چاہیے بلکہ ہر شعبہ سے وابستہ مزدوروں کو نمائندگی بھی دی جائے۔ مزدوروں کو قانون سازی میں حق دیا جائے۔
جسارت بات چیت