مزید خبریں

ڈیفالٹ کا خطر ہ! آئی ایم ایف کی شرائط عارضی طور پر روک دی جائے؟

ایک بر س کے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آئی ایم نے پاکستان کوکوئی قرضہ نہیں دیالیکن اب بھی ہر طرف سے یہی اطلاعات آرہی ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بغیرملک چلانا انتہائی مشکل ہوگا ۔ ملک کی تاجربرادی اور حکومتی ارکان اس کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے بغیر مزید قرضوں کا ملنا محال ہو گا جبکہ پرانے قرضوں کی ادائیگی 25 ارب ڈالر سالانہ کرنی ہوگی جو پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ صدر کاٹی نے وزیر اعلی سندھ کے مشیر کو بتایا کہ ای آئی ایف اور ایف آئی کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے جس کی وجہ سے امپورٹ مکمل طور پر رک چکی ہے۔ خام مال کی کی عدم دستیابی سے انڈسٹری مکمل طور پر منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) صدر فراز الرحمان نے کہا کہ آئی ایم ایف کے شرط عارضی طور پر مؤخر کردی جائے تو غیر دستاویزی معیشت کو دستاویز کرنے میں مدد ملے گی اور بلیک میں موجود ڈالرز کو استعمال کرکے معیشت کو بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہی کہنا ہے کہ ان کی اولین ترجیح معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔ ملک کو زرمبادلہ کی کمی کے باعث مشکلات درپیش ہیں تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور دوست ممالک کے تعاون سے اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے۔
سوال یہی ہے کہ کیاحکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں تاخیر کے پیش نظر متبادل اقتصادی ماڈل عوام کے سامنے پیش کرے یا پھرملک کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات کے زریعے ملک کی مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے اورسیاسی نعرے بازی کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق حکمت عملی وضع کی جائے۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس خوش آئند ہے مگر درحقیقت کرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ اقتصادی اصلاحات نہیں بلکہ درآمدات کو 80 ارب ڈالر سے کم کر کے 55 یا 60 ارب ڈالر سالانہ تک محدود کرنا ہے۔ درآمدات کو محدود کرنا ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ایک وقتی انتظام ہے جسے زیادہ دیرتک برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ اسکی وجہ سے پاکستان کا جی ڈی پی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے مزید برآں ہزاروں کارخانے بند اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کسی بھی صورت میں اس حد تک نہیں بڑھ سکتا کہ پاکستان 25 ارب ڈالر کے قرضے ہرسال واپس کر سکے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کے لئے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے معیشت کا تقریباً ہرشعبہ متاثر ہوا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام بڑھا ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں پچیس فیصد کمی آئی ہے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ 98 فیصد کم ہو چکی ہے۔ لاکھوں افراد کو کم نتخواہوں پر کام کرنا پڑ رہا ہے جبکہ بہت سی صنعتیں اپنی استعداد سے کہیں کم کام کر رہی ہیں۔ ڈیفالٹ کے خطرے اور روپے کی قدرمیں کمی جاری رہنے سے مارکیٹ بے یقینی کی کیفیت میں ہے جس سے مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے مگر دوسری طرف روپے کی قدر میں کمی سے ایکسپورٹ اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زرمیں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ترسیلات زر سے سالانہ تیس ارب ڈالر یا نو ہزارارب روپے پاکستانیوں کے استعمال میں آتے ہیں جومہنگائی اورغربت سے مقابلے کا باعث ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ عوام اور کاروباری برادری کو کرنٹ اکاؤنٹ مینیجمنٹ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ وقتی طور پر پر ٹل گیا ہے مگر اس سے معیشت سکڑ رہی ہے اورحکومت کی ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی میں بھی کمی آ رہی ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اگر معیشت، زراعت اور توانائی کے شعبہ میں مطلوبہ اصلاحات فوری طور پر کرلی جائیں تو 20 ارب ڈالر سالانہ بچائیجا سکتے ہیں جس سے نہ صرف عوام کو ریلیف فراہم کی جا سکتی ہے بلکہ ڈیفالٹ کے خطرے سے بھی بخوبی نمٹا جا سکتا ہے۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی نے وفاقی بجٹ برائے2023-24 کے لیے اہم بجٹ تجاویز حکومت کو پیش کی ہیں جس میں حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ صنعتوں کو بند ہونے سے بچایا جائے اور صنعتوں کی بحالی کے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ مزید بے روزگاری کو روکا جاسکے نیز درآمدات کے متبادل اور برآمدات کے فروغ میں صنعتی شعبے کے کردار کو مضبوط کیا جاسکے۔بجٹ تجاویز میں زور دیا گیاکہ حکومت درآمد شدہ خام مال کی مشینری اور آلات پر غیر اعلانیہ پابندیاں ہٹائے کیونکہ اس طرح کی غفلت سے صنعتی شعبے کی پیداوار میں کمی آئی ہے جس نے ملک میں جاری معاشی بحران کو مزید شدیدکر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت کے اپنے ٹیکس اہداف کی وصولی خطرے میں پڑ گئی ہے۔سائٹ ایسوسی ایشن کی بجٹ تجاویز میں نشاندہی کی گئی کہ مجموعی طور پر افراط زر، کاروبارکی بڑھتی لاگت اور صنعتوں کے لیے قرضوں کی22 سے 23 فیصد شرح نے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ دیا ہے۔حکومت کو صنعتی شعبے کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے 2022 کے ای پی ڈی سرکلر نمبر 20 نے اس سے کہیں زیادہ مسائل پیدا کیے ہیں اور اس کی کچھ دفعات اسٹیٹ بینک کے فارن ایکسچینج ریگولیشن مینول کے منافی ہیں۔سائٹ ایسوسی ایشن کی بجٹ تجاویز میں مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ سرکلر میں تفصیلی وضاحت اور ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ ایک مکمل فریم ورک فراہم کیا جا سکے جسے مرکزی بینک سیلف فنڈڈ درآمدات کہتا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی کم شرح کے دیرینہ مسئلے اور نقصان کا باعث بننے والی ٹیکس پالیسیوں کی طرف بھی توجہ مبزول کروائی جو ایماندار ٹیکس دہندگان کے بجائے ٹیکس نادہندگان کو مراعات فراہم کرتے ہیں جو ایک دستاویزی معیشت کو فروغ دینے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ادویات مسلسل مہنگی ہو کر عام آدمی کی پہنچ سے نکل گئی ہیں اور عام آدمی علاج کروانے سے قاصر ہو گیا ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے فارما انڈسٹری پر ٹیکس ختم کئے جائیں تاکہ مہنگائی سے بلکتی عوام کو سستی دوائیں مل سکیں۔ شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ روپے کی قدر میں کمی مہنگائی اور بجلی اور تیل کی قیمت اور دیگر عوام نے دیگر صنعتوں کی طرح فارما انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور انکی کاروباری لاگت بہت بڑھ گئی ہے جسے عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔فارما انڈسٹری کے مسائل کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی ضروری دوا مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے جس سے عوام کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ شاہد رشید بٹ نے کہا کہ گزشتہ جولائی سے اب تک روپے کی قدر میں 78 فیصد کمی آئی ہے، ایندھن کی فی لیٹر قیمت میں 142 فیصد اضافہ ہوا ہے ، بجلی کے ٹیرف میں 177 فیصد اضافہ ہوا ہے جس نے عوام اور کاروباری برادری کا بھرکس نکال دیا ہے۔ صنعتی شعبہ کے لئے مجموعی کاروباری لاگت تین سو فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ مہنگائی کی وجہ سے فارما انڈسٹری کی سیلز میں تئیس فیصد کمی آئی ہے کیونکہ عوام پیٹ بھرنے کے لئے علاج معالجہ پر کمپرومائیز کر رہے ہیں۔سنہ 2000میں پاکستان کے فارما سیکٹر میں 36 ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی تھیں جن کی تعداد اب گھٹ کر 22 رہ گئی ہے اور اگر صورتحال کا نوٹس نہ لیا گیا تو انکی تعداد مزید گھٹ سکتی ہے۔ اس صنعت کو بچانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے فارما انڈسٹری کے خام مال، پیکنگ میٹریل، اور بجلی، گیس وغیرہ کے بلوں پر عائد ہر قسم کا ٹیکس ختم کیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
وفاقی بجٹ 2023-24 میں بین الاقوامی بیسٹ پریکٹس کی طرز پر ٹیکسیشن اصلاحات کی جانی چائیں؛ جن کے بنیادی اصول ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرناہونا چائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں معیشت کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لیے وفاقی بجٹ میں ایسے ٹیکس نظام کی ضرورت ہے کہ جو کاروبار دوست اور ترقی پسندانہ ہو۔محمد ندیم قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں ٹیکس کلیکشن جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی کم ہی؛جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام متوازن، وسیع البنیاد اور کاروبار دوست نہیں ہے۔ٹیکسیشن پالیسی میں کی جانے والی بڑی تبدیلیوں کو انتظامی فریم ورک میں مطلوبہ تعاون حاصل نہیں ہے۔ایف بی آر میں مناسب تنظیمی ڈھانچے کا فقدان ہے ،کاروبار دوست سہولیات کا فقدان ہے،ادارہ جاتی بجٹ بھی کم ہے اور انسانی وسائل کی ترقی پر بھی زیادہ زور نہیں دیا گیا ہے۔محمدندیم قریشی نے حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسیوں میں اصلاحات کرنے کے لیے تجاویزدیتے ہوئے کہاکہ حکومت کو ٹیکس پالیسیوں کو برا?مدات پر مبنی کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے ذریعے نئی اور غیر روایتی بین الاقوامی منڈیوں میں ایکسپورٹ کرنے میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔ٹیکس کے نظام کوآسان ہونا چاہیے تاکہ مسلسل اقتصادی اور کاروباری ترقی کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو راغب کیا جا سکے۔ جامع اور پائیدار ترقی کے لیے میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنا لازمی شرط ہے اور ٹیکس کے نظام کو معاشی سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرنی چاہیے اورایف بی آر (FBR)ایک نوٹس مینوفیکچرنگ فیکٹری کے طور پر کام کرنا بند کردینا چاہیے۔ٹیکس کے موجودہ نظام سے مطلوبہ محصولات حاصل کرنے کے لیے حکومت کو فرسودہ قوانین و ضوابط اور ٹیکس کی شرح پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اچھی تربیت یافتہ، جدیدٹیکنالوجی سے لیس اور پْر عزم انسانی وسائل کو ترقی دینی چاہیے۔ ٹیکس پالیسی، انڈسٹریل پالیسی، برآمدات کے ہدف اور ما نیٹری پالیسی کے مقاصد میں ہم آہنگی ہونی چاہئی؛بصورت دیگر، ان میں سے کوئی بھی پالیسی کام نہیں کرے گی۔
وزیر مملکت پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق مسعود ملک نے کہا ہے کہ پاکستان سینٹرل ایشا ممالک کے لئے گیٹ وے ہے اور کوئی بھی سامان جانا ہے تو پاکستان سے گزر کر جانا ہے،یہ ایک راہ داری ہے جسے سب کو سمجھانا ہوگا , پاکستان کی بہت اہمیت ہے, پاکستان کے بارے میں کافی عرصے سے غلط سمجھا جاتا رہا ہے اوربات ہمیشہ خراب ہوتی رہی ہے، پاکستان کو ایسا فریم کیا گیا کہ کسی کو سمجھ نہیں آیا لیکن درحقیقت پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور پاکستان اپنی ذمہ داری پوری ہمیشہ کرے گا۔ انہوں نے یہ بات جمعرات کو پاک شاہین پرائیویٹ لمیٹڈ اور روسی شپنگ کمپنی نیکو لائن کی جانب سے روس سے پہلی براہ راست شپنگ سروس کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو اور خطاب کے دوران کہی۔ مصدق ملک نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور نواز شریف نے ہدایت کی کہ مہنگائی کو کم کرنا ہے ,ملک میں سستی گیس اور سستا فیول لانا ہے ,اس پر کام کیا اور اب روس سے سستا تیل پاکستان آئے گا ,یہ تمام پلان مرتب کرلیا گیا ہے اس کا فائدہ عوام کو ہوگا , سستی گیس ،فیول سستا لانے کے لئے معاہدے کرکے اگے بڑھیں گے- وزیر مملکت مصدق ملک نے کہا کہ ریفائنری پالیسی بنا لی ہے ,بہت جلد وزیر اعظم اس کی منظوری کرائیں گے اوروزیر اعظم بہت جلد 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے منصوبے کا افتتاح کریں گے ,ابھی اس کی مکمل تفصیلات نہیں بتاوں گا مگر بہت جلد دس ارب ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں ہونے جارہی ہے- مصدق ملک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دس ارب ڈالر کی پیٹرولیم ریفائنری میں نئی سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے ، ملک بھر میں پیٹرول کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے روس سے 20 فیصد تیل خریدا ہے۔پاکستان میں دنیا بھر سے آئل ریفائنری سیکٹر میں سرمایہ کاری کی جائے گی, پاکستان روس کے بعد ایران سے بھی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کا خواہشمند ہے- مصدق ملک نے کہا کہ ایران کے ساتھ گیس پائن لائن منصوبے کی تکمیل پر مشاورت جارہی ہے, ایران پر عالمی پابندیاں ہیں جائزہ لے کر فیصلہ جائے گا، پاکستان بارڈر سسٹم کے ذریعے ایران سے پہلے ہی تجارت کررہا ہے ,سو میگا واٹ کی بجلی بارڈر ٹریڈ کے ذریعے ایران سے خریدی جارہی ہے , ملک بھر میں اب ریفائنری پالیسی کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی ,حکومت کاغذی باتیں نہیں عمل کرکے ثابت کررہی ہے – مصدق ملک نے کہا کہ سائفر لہرانے والے گڑگڑا رہے ہیں معافیاں مانگ رہے ہیں ، سائفر لہرا کر ملکی تقدس کو پامال کیا گیا ، ریاستی تنصیبات کو نقصان پہنچانا آگ لگانا کسی صورت برداشت نہیں ہے- مصدق ملک نے کہا کہ بجٹ ابھی تیار نہیں ہوا ، پیٹرولیم لیوی کا کتنا ہدف رکھا ہے نہیں بتا سکتا ہے, روس سے تیل لے کر جہاز بہت جلد پاکستان پہنچ رہا ہے-
لیکن سوال یہی ہے کیا یہ ساری صورتحا ل ملک کے عوام کے معاشی ترقی میں کو ئی اہم کردار ادا کرسکے گا اور عوام کو بے روزگاری ،غربت سے نجات مل سکے گی ۔ملک میں بند صنعتوں کو دوبارہ چلانے میں اہم کردار ادا کرسکے گا؟
nn