مزید خبریں

مَحرم کے بغیر سفر حج

سوال: میری سالی (بیوی کی سگی بہن) جو بیوہ ہے، اس کا کوئی لڑکا بھی نہیں ہے، اس کے بھائی کا بھی کافی عرصے پہلے انتقال ہوچکا ہے، اس کی تمنا اور دلی خواہش فریضۂ حج ادا کرنے کی ہے، لیکن کسی محرم کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک اداے حج سے محروم ہے۔ اس سال ہم میاں بیوی کا حج پر جانے کا ارادہ ہے۔ ابھی فارم بھرے جانے ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ اپنی سالی کو بھی اپنی بیوی کے ساتھ حج کے لیے لے جائوں۔ آپ سے استدعا ہے کہ بہ راہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتانے کی مہربانی فرمائیں کہ کیا وہ ہمارے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے؟
جواب: حج کی فرضیت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے عائد ہوتی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ (آل عمران: 97)
’استطاعت‘ کی تشریح کرتے ہوئے علما نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں۔ ان میں سے کچھ عام ہیں، جن کا اطلاق مردوں اور عورتوں دونوں پر ہوتا ہے اور کچھ عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ عام شرائط یہ ہیں: زادِ راہ اور سواری میسر ہو، جسمانی صحت ہو، راستے پرامن ہوں اور اتنا وقت ہوکہ زمانۂ حج میں مکہ پہنچا جاسکتا ہو۔ عورتوں کے لیے مزید دوشرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ عورت عدّت نہ گزار رہی ہو اور دوسری یہ کہ وہ اپنے شوہر یا محرم کے ساتھ ہو۔
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے نسب یا سسرالی رشتہ یا رضاعت کی وجہ سے عورت کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مثلاً بیٹا، باپ،بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، داماد، خسر وغیرہ۔ بعض رشتے ایسے ہوتے ہیں، جن میں کسی عارضی سبب سے عورت سے نکاح حرام ہوتاہے۔ وہ سبب دور ہوجائے تو نکاح جائز ہوگا۔ مثلاً بیوی کے زندہ رہتے ہوئے اس کی بہن یعنی سالی سے نکاح نہیں ہوسکتا، لیکن اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو سالی سے نکاح ہوسکتا ہے۔ فقہا نے عورت کے سفرِ حج کے سلسلے میں ابدی محارم کا اعتبار کیا ہے، عارضی محارم کا نہیں۔
عورتوں کے لیے مخصوص شرائط میں سے پہلی شرط پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’(زمانۂ عدت میں) نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں‘‘۔ (الطلاق: 1)
اسی طرح دوسری شرط پر بھی تمام علما کا اتفاق ہے، اگر عورت نفلی حج کا ارادہ رکھتی ہے۔ رہی وہ عورت جس پر حج فرض ہے، کیا اس کے لیے بھی سفر حج میں شوہر یا محرم کے ساتھ ہونا ضروری ہے؟ اس میں فقہا کا اختلاف ہے۔ بعض فقہا کہتے ہیں کہ عورت پر حج کے وجوب کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت ضروری ہے۔ اس رائے کے حامل حسن بصری، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، اعمش، اسحق، ابوثور کے علاوہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے تنہائی ہرگز میں نہ ملے، مگر اس وقت جب اس کے ساتھ کوئی محرم ہو، اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے‘‘۔
راوی کہتے ہیں کہ اس موقع پر ایک آدمی نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! میری بیوی حج کے لیے جانے کا ارادہ رکھتی ہے، جب کہ میں نے فلاں غزوے میں شرکت کے لیے اپنا نام لکھادیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جائو، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو‘‘۔ (بخاری و مسلم)
بعض دوسرے فقہا کہتے ہیں کہ فرض حج کی ادائی کے لیے شوہر یا محرم پر عورت کا انحصار ضروری نہیں ہے۔ اگر کسی وجہ سے شوہر یا کوئی محرم ساتھ نہ جاسکے تو عورت کسی ایسے گروپ میں شامل ہوسکتی ہے، جس میں معتبر مرد اور عورتیں ہوں۔ بلکہ ایسا گروپ بھی حج کے لیے جاسکتاہے، جس میں صرف عورتیں ہوں۔ اس رائے کے حاملین میں عطا، سعید بن جبیر، ابن سیرین اور اوزاعی کے علاوہ امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ ہیں۔
امام احمدؒ نے (ایک قول کے مطابق) نوجوان اور بوڑھی عورت میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک بوڑھی عورت بغیر محرم کے سفر حج کرسکتی ہے، جواں عورت نہیں۔ بعض شافعی فقہا مثلاً شیرازیؒ فریضۂ حج کے لیے عورت کو تنہا سفر کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔امام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے کہ فرض حج کی ادائی کے لیے عورت محرم کے بغیر بھی سفر کرسکتی ہے۔
ان حضرات کی دلیل سیدنا عدی بن حاتمؓ سے مروی حدیث ہے، جس میںاللہ کے رسولؐ نے عدیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
’’اگر تمھاری زندگی رہی تو تم ضرور دیکھو گے کہ ایک عورت تنہا حیرہ (عراق کا ایک مقام) سے سفر کرکے آئے گی اور خانۂ کعبہ کا طواف کرے گی۔ اسے پورے سفر میں اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہوگا‘‘۔ (بخاری)
یہ حضرات اس سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ خلیفۂ دوم سیدنا عمر بن الخطابؓ نے اپنی زندگی کے آخری سال ازواج مطہرات کو حج کے لیے روانہ فرمایا تھا تو ان کے ساتھ سیدنا عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوفؓ کو بھیجا تھا۔ (بخاری)
حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر، عثمان، عبدالرحمن بن عوفؓ اور ازواج مطہرات بغیر محرم کے عورت کے سفر کو جائز سمجھتے تھے اور دوسرے صحابہ کرامؓ نے بھی ان کے اس عمل پر ان کی نکیر نہیں کی تھی۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری) یہ بھی مذکور ہے کہ پہلے سیدنا عمرؓ نے ازواج مطہرات کو سفر حج سے منع کردیا تھا، لیکن بعد میں انھوںنے اس کی نہ صرف اجازت دے دی تھی، بلکہ اس کا انتظام بھی کیا تھا۔ (فتح الباری)
یہ حضرات عورت کے سفر حج کے لیے محرم کے بجائے امن وامان کی شرط لگاتے ہیں۔ یعنی عورت بغیر محرم کے اس صورت میں حج کے لیے سفر کرسکتی ہے، جب راستا پرامن ہو اور اس کی جان اور عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
دیکھاجائے تو امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ہم نوا فقہا کی رائے میں احتیاط کا پہلو ملحوظ ہے اور دوسرے فقہا کی رائے میں جواز کا۔ اسی وجہ سے موجودہ دور کے علما کی آراء میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سعودی عرب کے علما شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز، شیخ محمد بن عثیمین اور شیخ محمد صالح المنجدؒ نے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے اور شیخ یوسف القرضاویؒ نے جواز کا۔