مزید خبریں

تبدیلی کے نام پر 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ غلط تھا،ذمے داران کو سزا دینی چاہیے

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) تبدیلی کے نام پر 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ غلط تھا‘ ذمے داران کو سزا دینی چاہیے‘ سیاسی احتجاج میں قومی، دفاعی اور ثقافتی اثاثوں کو نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے‘ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا لوگ اپنے ہی ملک کے حساس اداروں پر چڑھائی کریں‘ بحران کو حکمت اور بصیرت کے بجائے طاقت سے حل کرنا افسوسناک ہے۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، پاکستان اسٹیل کے رہنما مرزا مقصود، ارشد محمود ایڈووکیٹ، پی آئی اے ایکشن کمیٹی کے صدر محمد عارف خان روہیلہ، EPWA لیڈیز ونگ کی صدر ملکہ افروز روہیلہ، مزدور اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین لطیف خان یوسف زئی، سنوفی ایمپلائز یونین پاکستان کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری راجا محمد نعیم خان، الائیڈ بینک ریٹائرڈ آفیسرز ایسوسی ایشن کے رہنما مسرور احمد اور پیپلز پارٹی یوسی 7 کے رہنما جاوید اختر نے
جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا سیاسی احتجاج میں قومی، دفاعی اور ثقافتی اثاثوں پر حملے جائز ہیں؟ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں قومی اور دفاعی املاک کو نقصان پہنچانا انتہائی افسوسناک اور المناک عمل ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر پریشان کن موجودہ بحران کو تدبر، حکمت اور بصیرت سے حل کرنے کے بجائے طاقت سے حل کرنا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بحران کے تمام فریق قوم و ملک کے درپے ہیں‘ حکومت اور مقتدر لوگ ہوں یا عمران خان سب اس بحران میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے نتائج و عواقب سے بے فکر ہو کر اندھی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں‘ مقتدر افراد اپنے اقتدار کی طاقت اور عمران خان اپنی مقبولیت کی طاقت کو استعمال کرکے اس بحران کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید بڑھا رہے ہیں اور کوئی بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے اور بصیرت کی آنکھ کو استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مرزا مقصود نے کہا کہ احتجاجی سیاست میں عوام الناس کو پر تشدد بنانا سیاست کا بد ترین عمل ہے‘ عمران خان نے ایسے بیانیے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جو مخالفین کو تہس نہس کردے۔ جب مخالفت کی بنیاد پر سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، پولیس افسران، ججز، حتیٰ کہ فوجی افسران کے خلاف بدترین سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تھی تو یہ بھی بد ترین دہشت گردی تھی مگر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا جس کا نتیجہ 9 مئی کے واقعات کی صورت برآمد ہوا ‘ اب یقینا حکومت کو پوری قوت سے ذمہ داروں، ان کے سہولت کاروں اور انہیں اشتعال دلوانے والوں کو قانون کی گرفت میں لانا چاہیے۔ ارشد محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ رجیم کی تبدیلی میں ماسٹرز سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ عارف خان روہیلہ نے کہا کہ سیاسی احتجاج میں قومی، عسکری یا ثقافتی اثاثوں کو نقصان پہنچانا کسی بھی صورت جائز نہیں‘ کچھ سیاسی جماعتیں احتجاج کی صورت میں توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ بیرون دنیا میں ہمارا نام خراب ہوتا ہے‘ ہم مہذب قوم کے بجائے ایک ہجوم سمجھے جاتے ہیں یہ سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی سیاسی تربیت کریں۔ انہیں پابند کریں کہ وہ احتجاج کرتے ہوئے صبر اور برداشت کا دامن تھامے رہیں۔ ملکہ افروز روہیلہ نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے احتجاجی مظاہروں میں توڑ پھوڑ ہمیشہ ملک دشمن عناصر خود کرتے ہیں یا ان کے آلہ کار یہ کام کرتے ہیں‘ ہمارے ملک میں انصاف نہیں ہے جس کی وجہ سے کسی بھی مجرمانہ واقعے کی شفاف تحقیقات نہیں ہوتی۔ لطیف خان یوسف زئی نے کہا کہ احتجاج پرامن احتجاج کسی بھی سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے اور جمہوریت کا حسن بھی ہے تاہم ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ ملک کے حساس ادارے کی تذلیل کی جائے یا دفاعی ادارے پر اپنے ہی ملک کے عوام چڑھائی کریں۔ راجا محمد نعیم خان نے کہا کہجو کچھ تبدیلی کے نام پر ہوا وہ غلط ہوا‘ اہم تنصیبات پر حملہ کرنا انتہائی غلط اور سراسر زیادتی ہے‘ یہ ناقابل معافی عمل ہے‘ ایسے کرداروں کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔ مسرور احمد نے کہا کہ ایسا سیاسی احتجاج کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا جو ہمارے قومی، دفاعی اور ثقافتی اثاثوں پر حملوں کا مترادف ہو۔ جاوید اختر نے کہا کہ تحریک انصاف نے احتجاج نہیں بلکہ دہشت گردی کی ہے‘اس سے قبل تمام سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیا ہے مگر انہوں نے ملکی سالمیت اور دفاعی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سیاسی دہشت گرد پارٹی ہے۔ افواج پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ اس بالٹی خان نے 4 سالہ اقتدار میں پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کیاہے‘ اس سلیکٹڈ نے لوگوں کو علمائے کرام سے دور کر دیا ہے‘ یہ سیاسی جماعت نہیں ’’فتنہ عمرانی‘‘ ہے۔