مزید خبریں

جسٹس فائز کی سربراہی میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلیے کمیشن قائم

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک/صباح نیوز) وفاقی حکومت نے عدلیہ اور ججز سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے 3رکنی انکوائری کمیشن قائم کردیا۔ کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن سے جاری کیا گیا جو 19 مئی کو گزٹ آف پاکستان میں شائع ہوا۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ حال ہی میں قومی الیکٹرانک،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر عدلیہ، سابق چیف جسٹس کی گفتگو سے متعلق گردش کرنے والی متنازع آڈیوز نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹسز/ججز کی غیر جانبداری، آزادانہ اور دیانت داری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا کیے ہیں۔چنانچہ عوامی مفاد میں عدلیہ کی ساکھ اور عوام کا اس پر بھروسہ اوراعتماد بحال کرنے کے لیے ان آڈیو لیکس کی صداقت اور درستی کی تحقیقات کرنا لازم ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ء کی دفعہ 3 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے
حکومت پاکستان ان مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دے رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کے سربراہ جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اس کے اراکین میں شامل ہیں۔نوٹیفکیشن میں درج کمیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن آڈیو لیک اور اس کے عدلیہ کی خود مختاری پر اثرات کا جائزہ لے گا۔کمیشن مبینہ طور پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور ایک وکیل کے درمیان عدالت عظمیٰ کے ایک حاضر جج سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ اور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔ٹی او آر کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ اور عدالت عظمیٰ کے موجودہ جج کی مبینہ آڈیو لیکس کے علاوہ سابق چیف جسٹس سے متعلقہ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ کے بینچ کے متوقع فیصلے سے متعلق ایک صحافی کی ایک وکیل کے ساتھ، عدالت عظمیٰ میں زیر التوا کیسز سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان کی خوشدامن کی ایک وکیل کی اہلیہ کے ساتھ اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی اپنے دوست کے ساتھ اپنے والد کے سیاسی کردار سے متعلق گفتگو کی مبینہ آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کمیشن کی معاونت کریں گے اور اسے درکار تمام مواد اور دستاویزات بھی فراہم کریں گے۔حکومت نے ہدایت کی وفاق میں موجود تمام اتھارٹیز اور صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ کمیشن کے کام میں اس کی معاونت کریں اور اس کی جانب سے کسی ہدایت کی صورت میں اس کی تعمیل کریں۔اس کے علاوہ کمیشن کو وفاقی حکومت کے خرچے پر سیکرٹریٹ قائم کرنے اور سیکرٹری تعینات کرنے کا بھی اختیار ہوگیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری کمیشن 30 روز میں تحقیقات مکمل کرے گا تاہم اگر کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید وقت چاہیے ہوا تو وفاقی حکومت مزید وقت فراہم کرے گی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مقامی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے ادارے کی ساکھ کو آڈیو لیکس نے متاثر کیا ہے اور کمیشن قائم کرنا حکومت کا اختیار ہے‘ وفاقی حکومت نے2017 ء کے ایکٹ کے تحت پہلے بھی کمیشن بنائے ہیں اور یہ کمیشن بھی اس ایکٹ کے تحت بنا ہے‘ اس کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان کو نہیں رکھا گیا نہ ان سے رائے لی گئی ہے‘ چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق بھی مبینہ آڈیو لیکس سامنے آئیں ہیں اس لیے جو دوسرے نمبر پر سینئر ترین جج ہیں ان کو یہ سربراہی سونپی گئی ہے۔