مزید خبریں

مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی آئینی شقوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی آئینی شقوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا‘ قانون سازی جاگیردا ر اور صنعتکار طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہے، مزدوروں کے لیے نہیں ‘ ملک بیگار کیمپ میں تبدیل ہوچکا‘ محنت کشوں اور فیکٹری مالکان میں فاصلے بڑھ گئے‘ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے تو ملک ترقی اور مزدور خوشحال ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، متحدہ لیبر فیڈریشن کراچی اور سیمنس پاکستان کے سابق رہنما شاہد غزالی،نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے ایسوسی ایٹ سیکرٹری اور پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان CBA کے مرکزی سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ، وویمن ورکر الائنس کی صدر رابعہ چوہان، سنوفی CBA کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری پاکستان راجا محمد نعیم خان،سندھ لیبر فیڈریشن کے رہنما ناصر صدیقی، جامعہ کراچی کے استاد حافظ سلمان نوید،نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے رکن مجلس عاملہ اور پاکستان ریلوے پریم یونین کے مرکزی چیف آرگنائزر خالد چودھری اور پی سی ہوٹلز نیشنل لیبر یونین کے رہنما احمدعلی عباسی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا آئین مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن بن سکا؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ آئین پاکستان پر اگر عمل درآمد ہو رہا ہوتا تو آج یہ ملک مزدوروں کے لیے بیگار کیمپ نہ ہوتا‘ آئین جو کسی قوم کی ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے پاکستان میں اسے بنانے کے لیے اتنی تاخیر کردی گئی کہ آدھا ملک (مشرقی پاکستان) گنوانا پڑا اور اسے بار بار آمروں نے توڑا اور آج تک آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ مزدور، کسان اور غریب عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ شاہد غزالی نے کہا کہ اداروں میں مزدوروں کو جو آئینی اور قانونی حقوق ملنے چاہئیں وہ انہیں نہیں دیے جاتے اور اگر کسی نے ہمت کرکے یہ سوال اٹھایا تو اسے ملازمت سے ہی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ اور اگر کسی نے اپنا حق عدالت میں جاکر مانگا تو اسے سالہا سال عدالتوں کے چکر لگانے پڑ جاتے ہیں‘ گھبرا کر وہاں جانے سے توبہ کرلیتا ہے‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مزدوروں کو پندرہ پندرہ اور بیس بیس سال بعد بھی انصاف ملا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدوروں کو جلد انصاف دے کر ان کے اعتماد کو بحال کیا جائے۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ آئین میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کی جو بھی ضمانت دی گئی تھی اس پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوا۔ کئی ایک آرڈیننس کے ذریعے مزدوروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ اسی طرح بین الاقوامی رائج قوانین کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے ہی جاگیردار اور صنعتکار ایوان اقتدار کا حصہ ہیں۔ اول تو وہ مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون سازی ہی نہیں کرتے۔ وہ حکومت میں ہوتے ہوئے پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کرانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نمائندے ایوانوں میں جائیں جو مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون سازی کرسکیں اور پھر ان قوانین پر عمل درآمد بھی کروا سکیں۔ رابعہ چوہان نے کہا کہ آئین پاکستان برابری کے حقوق دینے اور درست قانون سازی کا درس دیتا ہے مگر افسوس کہ ملک میں نہ کوئی قانون پر عمل کرنا ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ آئین کی پاسداری کرتا ہے۔ راجا محمد نعیم خان نے کہا کہ آئین پاکستان اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے مزدور طبقے کے بنیادی حقوق تلف کر دیے جاتے ہیں اور مزدوروں کو ان کے حقوق نہیں ملتے۔ پاکستان میں قانون کا فائدہ امیر طبقے کو ہے جبکہ مزدور کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ناصر صدیقی نے کہا کہ مزدور طبقے کے حقوق کا تحفظ کرنے والے عدم نہاد جاگیر دار، وڈیرے اور سرمایہ دار ایوان میں موجود ہیں جو مزدوروں کے ووٹ کے ذریعے اسمبلی سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں جب تک مزدور طبقہ اپنے اندر سے کسی کو اسمبلی تک نہیں پہنچاتا‘اس وقت تک استحصالی طبقہ مزدوروں اور غریب عوام کا استحصال کر تا رہے گا جب تک مزدور طبقہ خود کچھ نہیں کرتا۔ حافظ سلمان نوید نے کہا کہ آئین میں مزدوروں کے حقوق بہت واضح ہیں۔ چاہے آرٹیکل 17 ہو کہ جس کے تحت یونین یا ایسوسی ایشن کی تشکیل ہو یا آرٹیکل 18 ہو جس کے تحت پاکستانی شہری کسی بھی قانونی پیشے میں داخل ہونے کا حق رکھتا ہے لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ مزدوروں کے حقوق آج بھی غیر محفوظ اور حکومت کی جانب سے لاپرواہی و عدم توجہی کا شکار ہیں۔ خالد چودھری نے کہا کہ آئین تو ہمیشہ سے اشرافیہ کے گھر کی لونڈی رہا ہے ، یہ کسی مزدور کو کیا تحفظ فراہم کرے گا، پورا دن کارخانوں اور بھٹیوں میں کام کرنے والے معاشی اعتبار سے کمزور ہیں جب کہ ان کی محنت کی آمدن سے سرمایہ دار اور مالکان امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مزدور اور مالکان کے درمیان نفرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے‘ صنعتکار بنیادی حقوق فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ احمد علی عباسی نے کہا کہ صنعتکار مزدور طبقے سے قانونی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت کام کریں تو ملک کے مزدور خوشحال ہوجائیں اور عدالتوں کا وقت بھی بچ جائے گا اور انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا‘مزدور بھی خوشحال ہوگا۔