مزید خبریں

شعور آگہی اور تعمیری سوچ پیدا کر کے ہی تخلیقی معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) شعور و آگہی اور تعمیری سوچ پیدا کرکے ہی تخلیقی معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہے‘ تخلیقی عمل میں نئے نظریات کے ذریعے معاشی و سماجی مسائل کو حل کیا جاتا ہے‘ وقت کی قدر کے ساتھ لوگوں میں سمجھ اور احساسِ ذمے داری بھی ہونا چاہیے‘ سوچ کی وسعت اور جدت ہی انسان کو ممتاز کرتی ہے‘ ا قوام کی خوشحالی کا راز بھی تخلیقی عمل میں پنہاں ہے۔ان خیالات کا اظہار بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ تعلیم کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود، ٹیچ کی ڈائریکٹر کنول فواد اورگزشتہ13سال سے شعبہ تعلیم سے وابستہ حسنہ کوثر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’معاشرے کو تخلیقی کس طرح بنایا جاسکتا ہے؟‘‘ صائمہ محمود کا کہنا تھا کہ تخلیق ایک ایسا عمل ہے جس میں نئے نظریات و خیالات کے ذریعے معاشی و سماجی مسائل کو حل کیا جاتا ہے‘ معاشرہ اس وقت تک تخلیقی نہیں بن سکتا جب تک لوگوں میں سمجھ اور احساسِ ذمے داری نہ ہو۔ معاشرے کو تخلیقی بنانے کے لیے صرف کمانے کی فکر نہیں کرنی بلکہ معاشرے میں موجود ہر شخص کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا اور ہر شخص کو اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنا حصہ ڈالنے کے لیے زیادہ نہیں تھوڑی سی محنت درکار ہے یعنی وقت کی قدر کرنی ہوگی، بے جا موبائل فون
اور لیپ ٹاپ کا استعمال کم کرنا ہوگا، علم کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا، دماغ کا بہترین استعمال کرنا اور سطحی سوچ کو تبدیل کرکے گہرائی سے سوچنا ہوگا اور اپنے تجربات کی روشنی میں آرٹس، سائنس، فیشن، تحقیق اورادب میں اپنے کام کو موثر انداز میں سرانجام دینا ہوگا‘ اپنی سوچ اور کام میں مختلف النوعیت کو جگہ دینا ہوگی۔ اپنے خیالات اور جدت پسندی میں دوسروں کو شامل کرنا ہوگا تب جا کر ہم معاشرے کو تخلیقی بنا سکتے ہیں۔ کنول فواد کا کہنا تھا کہ جدت اور تخلیق انسانی جبلت کا خاصا ہیں۔ انسان پیدائشی طور پر بھرپور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتا ہے‘ ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اسے اپنی ان صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع مہیا کیے جائیں جس کی شروعات یقینی طور پر گھر سے ہوتی ہے۔ جب ایک بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو اپنے اردگردکے لوگوں اور ماحول سے اثر لیتا ہے۔ ایسے میں جب اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو اس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ یہی دائرہ کار آگے بڑھتے ہوئے اس کے اسکول تک پہنچتا ہے جہاں اساتذہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارا کمرہجماعت جدت اور تخلیق کی لیبارٹری کا کام انجام دیتا ہے۔ جہاں بچے کو سوچنے سمجھنے اور اپنے کام کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے جتنے مواقع دیتے جاتے ہیں وہاں بچے کی صلاحیت میں اتنا ہی نکھار پیدا ہوتا ہے۔ ہماری درسگاہیں بچوں کو مختلف زاویہ سے سوچنے اور اپنا نقطہ نظر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو بچے صرف بھیڑ چال کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ جیسے جیسے ایک بچہ اپنی زندگی کے مراحل طے کرتا جاتا ہے اور نئے نئے تجربات سے گزرتا جاتا ہے اس کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں اس کا خاندان اساتذہ، دوست احباب، سماج اور یونیورسٹیاں اپنا کردار ادا کرتی جاتی ہیں لیکن عالمی سطح پر حکومت کی جانب سے بچوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مواقع فراہم کرنا بھی بہت ضروری ہیں۔ سوچ کی وسعت اور جدت ہی انسان کو ممتاز کرتی ہے بلکہ قوموں کی ترقی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے کیونکہ ایک فرد ہی ایک باصلاحیت معاشرے کی بنیاد ہے۔ حسنہ کوثر کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے میں رہنے والے افراد مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر معاشرے میں موجود تمام افراد کو ان کی قابلیت ثابت کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو بے شمار تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ معاشرے میں شعور و آگہی، مثبت اور تعمیری سوچ پیدا کرکے ہی ایک تخلیقی معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ تخلیقی اذہان اپنے تخیل سے نئے اور مختلف خیالات کو جنم دیتے ہیں جب یہی بہترین خیالات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں تو ایک پرامن ،جدید اور بہتر معاشرہ تخلیق پاتا ہے جس سے زندگیاں سہل ہوجاتی ہیں اور مشکل حالات سے باآسانی نکلنا ممکن ہوجاتا ہے۔