مزید خبریں

مضامین و حقوقِ قرآن مجید

علمائے کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:
1۔عقائد، 2۔احکام، 3۔قصص۔ قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیث نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیث نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
1۔عقائد: توحید، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزا وسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
2۔احکام: اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں:
عبادتی احکام: نماز، روزہ، زکوۃ اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔
معاشرتی احکام: مثلاً: حقوق العباد کی ساری تفصیلات۔
معاشی احکام: خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔
اخلاقی وسماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔
سیاسی احکام: حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام ومسائل۔
عدالتی احکام: حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔
3۔ قصص: گزشتہ انبیائے کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآن کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟
تلاوت قرآن
احادیث میں تلاوت قرآن کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ’الم‘ ایک حرف ہے بلکہ’ا‘ ایک حرف ہے، ’ل‘ ایک حرف ہے اور’م‘ ایک حرف ہے‘‘۔ (ترمذی)
حفظِ قرآن
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے‘‘۔ ( صحیح مسلم)
قرآن فہمی
قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد بنی نوع انسان کی ہدایت ہے اور اگر سمجھے بغیر قرآن پڑھا جائے گا تو اس کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم علمائے کرام جنہوں نے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور سمجھانے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لگایا، ان کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس ذات عالی پر قرآن کریم نازل ہوا اس کے اقوال وافعال کے بغیر قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ایک آیت پیش ہے: ’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (سورۃ النحل 44) لہٰذا ہم روزانہ تلاوتِ قرآن کے اہتمام کے ساتھ کم از کم علمائے کرام وائمہ مساجد کے درس قرآن میں پابندی سے شریک ہوں۔
العمل بالقرآن
یہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق ہے اور اسی میں بنی نوع انسانی کی دنیاوی واخروی سعادت مضمر ہے اور نزول قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو گویا ہم قرآن کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے رک جائیں۔
قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا
امت مسلمہ پر یہ ذمے داری عائد کی گئی کہ اپنی ذات سے قرآن وحدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش وفکر کی جائے کہ ہمارے بچے، خاندان والے، محلے والے، شہر والے، بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ کو معبود حقیقی مان کر قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا) کی ذمے داری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار بیان کیا ہے۔ سورۂ العصر میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کے لیے چار صفات میں سے ایک صفت دوسروں کو حق بات کی تلقین کرنا ضروری قرار دیا۔ لہٰذا ہم احکام الٰہی پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔