مزید خبریں

صبر کرنے کی فضیلت

نبی کریمؐ فرمایا: ’’مومن بندے کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت وآرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم وکریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت کا یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجب برکت ہوتا ہے۔ (الجامع الصحیح لمسلم)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’جو بندہ کسی جانی مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے ،تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں‘‘۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی)
صبر مصیبت پہنچنے کے بعد فوراً ہونا چاہیے: آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ابن آدم! اگر تو نے شروع صدمہ میں صبر کیا او رمیری رضا اور ثواب کی نیت کی، تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے (یعنی شروع صدمے میں صبر کرنے کی جزا جنت ہے)۔ (سنن ابن ماجہ)
آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا، رونا یہ صبر کے خلاف نہیں
نبی کریمؐ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ نے آپؐ کے پاس پیغام بھیجا کہ میرے بچے کا آخری دم ہے، لہٰذا آپ اس وقت تشریف لے آئیں، آپؐ نے اس کے جواب میں سلام کہلا کے بھیجا اور پیغام دیا کہ ’’بیٹی! اللہ تعالیٰ کسی سے جو کچھ لے وہ بھی اسی کا ہے اور کسی کو جو کچھ دے وہ بھی اسی کا ہے، اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اور وقت مقرر ہے (اور اس وقت کے آجانے پر وہ چیز اس دنیا سے اٹھالی جاتی ہے) پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس صدمے کے اجرو ثواب کے طالب بنو۔ صاحبزادی نے پھر آپؐ کے پاس پیغام بھیجا اور قسم دی کہ اس وقت نبیؐ ضرور ہی تشریف لے آئیں، پس آپؐ اٹھ کر چل دیے اور آپ کے اصحاب میں سے سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابتؓ اور بعض دیگر حضرات بھی ساتھ ہو لیے۔ وہ بچہ اٹھا کر آپؐ کی گود میں دیا گیا اور اس کا سانس اکھڑ رہی تھی، اس کے حال کو دیکھ کر رسولؐ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس پر سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا، حضرت یہ کیا؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہ رحمت کے اس جذبے کا اثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دیا ہے اور اللہ کی رحمت ان ہی بندوں پر ہوگی جن کے دلوں میں رحمت کا یہ جذبہ ہو‘‘۔ (الجامع الصحیح للبخاری)
میرے دوستو! یہ وہ سبق ہے یہ وہ تربیت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی کرنا چاہتے ہیں، مصائب آئیں، پریشانیاں آئیں، صبر سے کام لو، ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکلے، خدانخواستہ جب بھی کوئی مصیبت آئے، پریشانی آئے، فوراً وضو کرو، دو رکعات نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، دعا کا اہتمام ہو، یہ کام کرنے کے بعد اسباب کے درجے میں کوئی اورکام کرنا چاہتے ہو تو کرسکتے ہو، منع نہیں ہے، لیکن دیکھا جا ئے گا کہ اول وہلہ میں آپ نے کیا کیا؟ تو جو مومن ہوگا اس کا فوری رد عمل یہ ہوگا کہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوگا، وہ اللہ سے مانگے گا اور وہ اسے اللہ کی طرف سے سمجھے گا۔