مزید خبریں

اصحابَ اختیار و نرم مزاجی

صاحب ِاختیار سرکاری حکام و افسران حکومتی معاملات چلانے کے لیے سختی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس نبیؐ اپنے عُمّال کو نرمی کا حکم دیتے تھے۔ عاملین زکوٰۃ کو فرمایا کہ جب کسی سے زکوٰۃ وصول کرو تو اس کے بہترین مال میں سے نہ لو بلکہ کمتر میں سے قبول کرلو۔سرکاری حکام عوام الناس کی جاسوسی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جب کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’امیر جب عوام الناس کے اندر شکوک و شبہات کا کھوج لگانے لگے تو ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ (ابوداؤد) امیر معاویہؓ راوی ہیں کہ میں نے نبیؐ کو فرماتے سنا کہ تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچادو گے۔ (ابوداؤد)
امام مسجد کو نرمی کی نصیحت فرماتے کہ وہ نماز پڑھاتے ہوئے یہ پیش نظر رکھے کہ اس کے پیچھے ضعیف و ناتواں بھی ہیں اور عورتیں اور بچے بھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھائوں لیکن اس خیال سے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ میرے پیچھے بوڑھے بھی ہیں اور عورتیں بھی جن کی ہانڈیاں جل رہی ہوں گی، بچے رو رہے ہوں گے‘‘۔ (بخاری)
ہدایت فرمائی کہ مقروض سے تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کی جائے۔ حدیث کے مطابق ایک شخص محض اس وجہ سے جنت میں چلا گیا کہ وہ لوگوں کو قرض دیتا تھا اور جب تقاضے کی تاریخ آجاتی تو اپنے کارندوں کو کہتا کہ اگر وہ دینے سے معذرت کرے تو اسے مہلت دے دینا۔ (بخاری)
مسافروں کا قافلہ ہو یا کوئی اصلاحی و رفاہی تنظیم و تحریک، ہر مزاج، صلاحیت اور ذوق کے افراد اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ اہل کارواں کا ہم منزل اور ہم مقصد ہونا ضروری ہے لیکن سب کا ہم مزاج ہونا ضروری نہیں۔ امیر کارواں کے لیے تمام صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری نہیں اور نہ یہ ہر جگہ ممکن ہے۔ البتہ اس کے لیے ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ مختلف مزاج اور صلاحیتوں کے حاملین کو مطمئن رکھ سکے، دل جوڑ سکے اور ساتھ لے کر چل سکے۔ اصول پرستی کے نام پر بے مروتی کرنے اور اپنے ماتحتوں اور کارکنوں کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھنے کے شوقین حضرات جلد ہی نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ اختیارات کے استعمال پر کمر بستہ لوگ جلد ہی تنظیم اور ادارے سے وابستہ اپنے ماتحتوں کو خود سے بدظن کر بیٹھتے ہیں۔
آپؐ کیسے امیر کارواں تھے، اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والے ابو سفیانؓ، صفوانؓ بن امیہ، حکیمؓ بن حزام، سہیلؓ بن عمرو، حویطبؓ بن عبدالعزیٰ، ابوجہل کے بھائی حارثؓ بن ہشام کو سو سو اور تین تین سو اونٹ غزوۂ حنین کے مالِ غنیمت میں سے دیے۔ اسلام دشمنی میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں پر نبیؐ کی مالی نوازشات دیکھ کر انصار کی زبانوں پر یہ شکوہ آگیا کہ رسولؐ نے قریش کے نومسلموں کو کثیر مال دیا اور ہمیں محروم رکھا، حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک قریش کا خون ٹپک رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو ہمیں پکارا جاتا ہے اور مال غنیمت اوروں کو دیا جاتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے انصار مدینہ کے یہ خیالات نبیؐ کو بتلائے تو آپؐ کو یہ سن کر دْکھ ہوا اور فرمایا: ’’اللہ کی رحمت ہو سیدنا موسٰی پر، بلاشبہہ ان کو ان کی قوم کی طرف سے زیادہ اذیت دی گئی اور انھوں نے صبر کیا‘‘۔
آپؐ کی ہدایت پر جب تمام انصار ایک خیمے میں جمع ہوگئے تو آپؐ نے انصار کا موقف سنا اور پھر فرمایا: ’’اے انصار! کیا ایسا نہیں کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے سے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے تمھیں غنی کر دیا۔ تم باہمی دشمنیوں کی آگ میں جھلس رہے تھے، میرے ذریعے سے اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے‘‘۔ سب انصار نے ان احسانات کا اعتراف کیا۔
آپؐ باتیں کرنے والوں کو گستاخ قرار دے کر ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرسکتے تھے لیکن آپؐ جانتے تھے کہ انصار کا یہ اضطراب مال کی حرص کی وجہ سے نہیں۔ انھیں تو یہ دکھ تھا کہ وہ قریش جنھوں نے مکے اور مدینے میں نبیؐ کا جینا دوبھر کر دیا تھا، وہ آج آپؐ کی نظر کرم کے مستحق بن گئے ہیں۔ انصار نے نبیؐ اور صحابہ کے لیے قربانیاں ہی بہت دی تھیں چنانچہ نبیؐ نے انھیں ڈانٹنے کے بجائے اپنی ذات پر انصار کے احسانات خود بتانے کا دل نواز اسلوب اختیار کیا:
’’خداکی قسم، اے انصار! اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ اے محمدؐ! جب تمھاری قوم نے تمھیں جھٹلادیا تھا تو ہم نے تمھاری تصدیق کی تھی۔ تم قوم میں بے یارومددگار تھے تو ہم نے تمھاری مدد کی۔ تمھاری قوم نے تمھیں مسترد کر دیا تھا، ہم نے تمھیں ٹھکانہ دیا۔ تم محتاج تھے، ہم نے تمھاری غمگساری کی۔ اگر تم یہ کہتے تو تمھارا یہ جواب سچا ہوتا اور سب اس کی تصدیق کرتے‘‘۔ انصار کے احسانات کا اعتراف کرکے آپؐ نے ان کے دل اپنی مٹھی میں لے لیے اور پھر فرمایا: ’’اے انصار! تم دنیا کی عارضی دولت کے لیے محمدؐ سے ناراض ہوگئے، جو میں نے نومسلموں کی تالیف ِقلب کے لیے ان کو دی ہے۔ اے انصار، کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو جائیں، جب کہ تم اللہ کے رسولؐ کو اپنے ساتھ لے کر گھروں کو پلٹو۔ خدا کی قسم! جس چیز کو لیکر تم جائو گے وہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے‘‘۔ ہر طرف سے ہچکیوں بھری آوازیں بلند ہوئیں: ’’یارسول اللہ! ہم راضی ہیں اس بات سے کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
مزید فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! اگر ساری دنیا ایک راہ چلے اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ تم انصار میری چادر کا اندرونی حصہ ہو، جب کہ دوسرے لوگ بیرونی۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما۔ ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحم فرما‘‘۔
رسولؐ کے اس دل پذیر اور دل نواز خطاب کے دوران انصار اس قدر روئے کے داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں اور وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں۔
(بخاری، ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم، ص: 570-572)