مزید خبریں

بینظیر مزدور کارڈ کا وعدہ پورا نہ ہوسکا

یکم مئی 2021 کو صوبائی محکمہ محنت سندھ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک باوقار تقریب منعقد کی تھی جس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی تھی۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں محکمہ محنت سندھ کے زیر اہتمام بے نظیر مزدور کارڈ کی تقسیم کی تقریب کے دوران بلاول بھٹوزرداری نے اس وقت کہا تھا کہ بے نظیر مزدور کارڈ سے متعدد سہولیات میسر ہوں گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر اعلان کیا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ’’بے نظیر مزدور کارڈ‘‘ کا آغاز کر کے آج مزدور ڈے منارہی ہے جس کے تحت کارکنان تعلیم، صحت، شادی سے متعلق گرانٹ، مالی اعانت، وظائف جیسے تمام ضروری فوائد اور سہولیات حاصل کرسکیں گے۔ پروگرام کے بعد میڈیا سے بریفنگ میں وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے صوبے کے مزدوروں کو کئی سہولیات ملیں گی۔ ’’بے نظیر مزدور کارڈ‘‘ سے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والے بے نظیر کارڈ سمیت دیگر کارڈز میں رجسٹرڈ لوگوں کو صرف نقد رقم ملتی تھی، مگر بے نظیر مزدور کارڈ میں مزدوروں اور ان کے گھر والوں کے لیے متعدد سہولیات رکھی گئی ہیں، جس سے مزدوروں اور ان کے خاندان والوں کو مالی تحفظ مہیا ہوگا۔ ترجمان کے مطابق سندھ میں چھ لاکھ مزدوروں کی بے نظیر مزدور کارڈ میں رجسٹریشن متوقع ہے اور اگر ایک مزدور کے خاندان میں اوسطً چھ افراد کا اندازہ لگایا جائے تو اس کارڈ سے سندھ میں 36 لاکھ افراد فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا: کسی فیکٹری میں کام کرنے والے، دیہاڑی دار مزدور یا ٹھیلہ چلانے سے لے کر اپنا ذاتی چھوٹا کاروبار کرنے والے مزدور خود کو اس کارڈ کے لیے رجسٹر کرواسکتے ہیں۔ مزدور خود کو سندھ ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹی ٹیوشن (سیسی) کے ساتھ رجسٹر کروا کے یہ کارڈ حاصل کرسکتے ہیں اور کارڈ میں اپنے جیون ساتھی اور بچوں کا اندراج بھی کرانا ہوگا
تاکہ کارڈ کے تحت ملنے والی سہولیات ان کو بھی مل سکیں۔ عبدالرشید کے مطابق کوئی بھی مزدور سندھ ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹی ٹیوشن کے دفتر جاکر ایک فارم پْر کرکے خود کو رجسٹر کرواسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن بھی رجسٹریشن کی سہولت میسر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر مزدور کارڈ رکھنے والے محنت کش کے بچوں کو مفت تعلیم، ان کی شادی پر جہیز الاؤنس، ریٹائرڈ ہونے پر پنشن، مالی اعانت، وظائف اور صحت کی تمام سہولیات میسر ہوں گی۔ کارڈ رکھنے والے محنت کش کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال چلے جائیں، کارڈ دکھائیں اور اپنا علاج مفت کروائیں۔ حیرت انگیز طور پر اس میں سے ایک بھی وعدہ دو سال مکمل ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکا۔ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے ریکارڈ کے مطابق سماجی تحفظ کے ادارے میں اس سے قبل رجسٹرڈ محنت کش کو ایک سوشل سیکورٹی کارڈ جاری کیا جاتا تھا۔ جسے R-5 کارڈ کہا جاتا تھا وہ محنت کش اس کے اہل خانہ اور والدین کو علاج معالجہ اور دوسری سہولیات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن پنجاب میں ڈیجیٹل کمپیوٹرائزڈ سوشل سیکورٹی کارڈ کے اجراء کے بعد سندھ میں بھی محنت کشوں کی سہولت کے لیے مزدور کارڈ متعارف کروایا گیا تھا۔ ستمبر 2020 میں اس سلسلے میں ایک معاہدہ کمشنر سیسی اسحاق مہر نے صوبائی وزیر محنت سعید غنی کی موجودگی میں دستخط کر کے کیا تھا۔ اور بطور ایڈوانس پچاس فیصد ادائیگی بھی کی گئی تھی اور منصوبہ کے آغاز میں ہی 51 کروڑ روپے ادا کئے گئے تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق ان کارڈ کے بننے کا آغاز یکم جنوری 2021 سے ہونا تھا اور دو سال کے عرصہ میں
اس منصوبہ کو مکمل ہونا تھا۔ جس سے محنت کشوں کو 6 لاکھ 25 ہزار کمپیوٹرائزڈ کارڈ جاری ہونے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ معاہدہ اور 51 کروڑ کی ادائیگی کے بعد جون 2021 میں گورننگ باڈی کی میٹنگ میں ان تمام معاملات کی منظوری ممبر گورننگ باڈی سے لی گئی تھی۔ منصوبہ شروع ہوئے نا صرف دو سال 4 ماہ گزر چکے یعنی پروجیکٹ کی معیاد دو سال پورے ہو چکے ہیں اور اس وقت سوشل سیکورٹی میں پہلے سے رجسٹرڈ چھ لاکھ رجسٹرڈ محنت کشوں کو جن کے پاس پرانے کارڈ R-5 کارڈ (پرانا سوشل سیکورٹی کارڈ) موجود تھے ان میں سے ابھی تک بمشکل 75 ہزار محنت کشوں کو ہی بینظیر مزدور کارڈ جاری ہوسکے ہیں۔ پانچ لاکھ سے زائد مزدوروں کا تو ابھی تک ڈیٹا بھی فیڈ نہیں ہوسکا ہے۔ اسی طرح جو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کوئی بھی دیہاڑی دار مزدور یا ٹھیلہ چلانے سے لے کر ذاتی چھوٹا کاروبار کرنے والا مزدور سوشل ایمپلائز سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے دفتر میں جا کر ایک فارم بھر کر یہ کارڈ بنوا سکتا ہے، اس کے علاوہ آن لائن بھی رجسٹریشن کی سہولت میسر ہوگئی، اس سلسلے میں بھی گزشتہ ڈھائی سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ایک بھی ایسے محنت کش کو کارڈ جاری نہیں ہوسکا کیونکہ اس عرصہ میں محکمہ محنت کوئی ایسی قانون سازی یا طریقہ کار نہیں بنا سکا کہ محنت کشوں کو یہ کارڈ جاری کیا جاتا۔ اسی طرح کارڈ کے تحت محنت کشوں کو مفت تعلیم، محنت کشوں کو کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال میں جا کر یہ کارڈ دکھا کر اپنا مفت علاج کروانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا جس پر تا حال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔جس سست رفتاری سے کارڈ بنانے کا عمل جاری ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ سیسی میں پہلے سے رجسٹرڈ مزدوروں کو ہی یہ کارڈ ملنے میں شاید مزید تین چار سال لگ جائیں۔ اس حوالے سے ماضی میں صوبائی وزیر محنت سندھ، سعید غنی کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ تمام افراد جو کسی کے ملازم نہیں ہیں لیکن مزدور ہیں، اپنا نام بے نظیر مزدور کارڈ پر اندارج کرا کے تمام فوائد کے مستحق ہو جائیں گے جو انڈسٹریل ملازمین کو حاصل ہیں۔سعید غنی کا کہنا تھا کہ سندھ میں اکثریت طبقہ مزدوری کرتا ہے اور انہیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے آج کے اس دور میں نیم متوسط طبقے کے لیے تعلیم اور صحت اہم ہیں اور بے نظیر مزدور کارڈ کے ذریعے یہ یقینی بنائیں گے کہ مزدور کی فیملی کی صحت اور تعلیم کی ذمہ داری ہم لیں گے۔پیپلز پارٹی کی سندھ میں مسلسل حکومت کو اب 15 سال مکمل ہورہے ہیں۔ اس عرصہ میں محنت کشوں فلاح و بہبود کے لیے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا اور جو ایک منصوبہ سوشل سیکورٹی کے فنڈ سے شروع کیا گیا کیونکہ یہ کنٹری بیوشن وہ فنڈ ہے جو آجر اپنے محنت کشوں کو سماجی تحفظ کرنے کی غرض سے سیسی کو ادا کرتا ہے۔ اس پروجیکٹ میں ابتک ارب سے زائد کے اخراجات کئے جاچکے ہیں اور یہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اگر یہ کمپیوٹرائزڈ کارڈ بن بھی جاتے ہیں تو اس میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ان کی ریڈ ایبل مشین اس وقت تک سوشل سیکورٹی کے کسی اسپتال یا ڈسپنسری میں موجود ہی نہیں ہے۔ جس کے ذریعہ محنت کش کے اہل خانہ کی تفصیل متعلقہ دفتر معلوم کرسکے۔ چونکہ اس کارڈ کی معیاد دس سال ہے لہذا جب تک یہ کارڈ عملی طور پر کام کرنا شروع کرے گا اس وقت تک کارڈز کی معیاد ختم ہوچکی ہو گی یا ہونے والے گی۔ کیا ایک بار پھر سوشل سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ ایک ارب سے زائد رقم خرچ کر کے یہ کارڈ دوبارہ بنوائے گی۔ اسی طرح ہوم بیسڈ ورکرز کی بھی سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن کا وعدہ کیا گیا گیا اور سوشل سیکورٹی ایکٹ میں پانچ سال قبل ترمیم بھی کئی گئی تھی۔ آج تک سندھ بھر میں ایک بھی ہوم بیسڈ ورکر کو سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو محنت کشوں کے ان مسائل کو ذاتی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔