مزید خبریں

پاکستانی خاتون کی تر کی میں ریسکیو خدمات

پاکستان کی جانب سے ترکی بھجوائی جانے والی ریسکیو ٹیم ڈاکٹر رضوان نصیر کی قیادت میں سات فروری کو ترکی پہنچی تھی۔دیبا شہناز اختر پاکستان ریسکیو ٹیم کی واحد خاتون ممبر ہیں جنھوں نے ریسکیو 1122 کو 2006 میں جوائن کیا تھا۔دیبا شہناز نے ایک ویڈیو بیان میں اس ریسکیو آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اور میری ٹیم کو، جس میں پانچ لوگ تھے، انھیں ٹاسک دیا گیا تھا کہ اس مقام سے آوازیں آ رہی ہیں اور ایک خاتون اندر ٹریپ ہیں۔یہ ایک رہائشی عمارت کا ملبہ تھا جو آنے والے زلزلے میں زمین بوس ہو چکی تھی۔واضح رہے کہ ریسکیو اور ملبہ ہٹانے کا کام خالی جگہوں کی تلاش کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ خالی جگہ یعنی کنکریٹ کے بیم یا ستون، یا سیڑھیوں کے نیچے خالی جگہ جہاں لوگوں کے موجود ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔دیبا کہتی ہیں کہ ’ہمارے عملے نے بہت بہادری سے خطرہ مول لے کر یہ آپریشن کیا۔یہ ایک رہائشی عمارت کا ملبہ تھا جو زلزلے میں زمین بوس ہو چکی تھی۔دیبا کہتی ہیں کہ ’ہمارے عملے نے بہت بہادری سے خطرہ مول لے کر یہ آپریشن کیا۔‘’ان خاتون کی دونوں ٹانگیں کنکریٹ کے اندر بری طرح سے پھنسی ہوئی تھیں۔یہ ایک طویل آپریشن تھا۔دیبا نے بتایا کہ ’چار گھنٹے کے اس آپریشن کے دوران خاتون کی ایک ٹانگ کو نکال لیا گیا لیکن دوسری ٹانگ کو نکالنے میں مشکل کا سامنا تھا۔‘’ہم اندر کٹر استعمال نہیں کر رہے تھے کیوں کہ عمارت کے ملبے کی حالت مستحکم نہیں تھی۔ سطح ہل رہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اوپر بھی کنکریٹ تھا۔ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک راستہ یہ ہے کہ اس ٹانگ کو بھی کاٹا جائے۔ ہم نے ترکی کے محکمہ صحت سے رابطہ کیا اور ڈاکٹرز کو بھی بلوا لیا گیا۔لیکن ہماری کوشش تھی کہ ہم ان کی ٹانگ کو بھی بچائیں اور ان کو بحفاظت نکال لیں تاکہ وہ معذور نہ ہوں۔یقین جانیں کہ ہم آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں۔’وئی پتہ نہیں ہوتا کہ بلڈنگ گر جائے۔لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ ہم آخر کار ان کی ٹانگ کاٹے بنا ان خاتون کو بحفاظت ملبے کے نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔